علامہ طالب جوہری کے اشعار
ان گلی کوچوں میں بہنوں کا محافظ کون ہے
کسب زر کی دوڑ میں بستی سے ماں جائے گئے
کہاں تک فلسفہ الفاظ کے آسیب سے بچتا
معانی ذہن کے اندر بھی حرف آلود ہوتے ہیں
ایک کنویں کی گہرائی سے مصر کے تخت شاہی تک
دیکھنے والی آنکھ کو کتنے نادیدہ بازار ملے
پہنچی دلوں کی آگ ہمارے خیام تک
لیکن دھواں تو جائے گا دربار شام تک
کر رہے ہیں زندگی میں معنویت کی تلاش
خواب میں ڈوبا ہوا تالاب صحرا اور میں
چاند تک اڑ کر پہنچنے کا نہیں امکان جا
جا چکوری اپنے گھر والوں کا کہنا مان جا
گھٹے تو جہل مرکب بڑھے تو کرب حیات
یہ آگہی بھی مصیبت ہے آدمی کے لیے
محسنوں کی آنکھ سے کاجل چرا لیتے ہیں لوگ
سوچتے کیا ہو نظر رکھا کرو سامان پر
غم عاشقی تری خیر ہو مری کائنات سنوار دی
جسے رد کیا تھا دماغ نے وہی بات دل میں اتار دی
دیار حسن میں تجدید عاشقی کے لیے
ہم ایسے لوگ ضروری ہیں ہر صدی کے لیے
بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی
یہ بھی ایک پیرایہ تھا سمجھانے کا
اس بدن کی رت ہوائے مہرباں لے آئی ہے
ہے کہاں کی بات دیوانی کہاں لے آئی ہے
اول اول علم فقط اک نقطہ تھا
آخر آخر جہل بنا تاویلوں سے
بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں
اس سے بچھڑ کر دور چلے تو کوسوں تک سیلاب رہا
جسم نے اپنی عمر گزاری سندھ کے ریگستانوں میں
دل کم بخت بڑا ضدی تھا آخر تک پنجاب رہا
کیسۂ جاں میں تجھے دینے کو اب کچھ بھی نہیں
سو دعائے خیر لیتا جا ٹھہر اے اجنبی