Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

انجم فاروق

1984 | لاہور, پاکستان

انجم فاروق کے اشعار

18
Favorite

باعتبار

بس اتنا سا ہے خلاصہ مری کہانی کا

کہ ابتدا تری آنکھیں ہیں انتہا مرا عشق

کہیں بھی بات ہو میرا حوالہ آ ہی جاتا ہے

محبت نے بچایا ہے مجھے گمنام ہونے سے

الوداعی شام آ پہنچی یہاں

چپ ہے تو میرا خدا ہوتے ہوئے

تو بتا کیسے گزاری شب ہجراں تو نے

میں تو جب رو نہ سکا میں نے غزل خوانی کی

جہاں تک ہو سکے خود کو بچا بدنام ہونے سے

محبت ختم ہوتی ہے محبت عام ہونے سے

ایسے ملیں کہ ہم کو بچھڑنے کا ڈر نہ ہو

وہ عشق کوئی عشق ہے جو عمر بھر نہ ہو

ابھی تو خوش ہوں ترے عشق میں بہت خوش ہوں

یہ ایک دن مرا جینا عذاب کر دے گا

بہت اچھا بہت اچھا بہت اچھا ہے تو لیکن

تجھے کوئی کہے اچھا مجھے اچھا نہیں لگتا

وہ تو انجمؔ خواب تھا بس خواب تھا

کب ترا تھا وہ ترا ہوتے ہوئے

اس لیے سانپ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں پیارے

میں مہکتا ہوں ترے ہجر میں صندل ہو کر

گلاب رت کی طرح عرصۂ جمال میں آ

ہوائے غم سے نکل موسم وصال میں آ

صاحبو میں نے تراشے نہیں پتھر کے صنم

میرے ہاتھوں سے بنا اور بنا ایک ہی شخص

بالکونی پہ کھڑی لڑکیاں کب سوچتی ہیں

یہ جگہ ٹھیک نہیں آئنہ داری کے لیے

اب ترا رستہ جدا میرا جدا

دیکھ قسمت کا لکھا ہوتے ہوئے

ان کی چہکار سے یادوں میں خلل پڑتا ہے

گھر کی دیوار سے چڑیوں کو اڑا دو انجمؔ

عشق وقت دگر پہ کیوں چھوڑیں

یہ ترے بعد ہو نہیں سکتا

تو زندگی کا مری انتساب ہے مرے دوست

سو تیرے نام ہی پہلی کتاب ہے مرے دوست

اب تو ہوائے شہر بھی بالکل تری طرح

یہ چاہتی ہے کوئی دیا بام پر نہ ہو

میں اگر حرف غلط تھا تو لکھا ہی کیوں تھا

لکھ دیا ہے تو خدارا نہ مٹایا جائے

میں چاہتا ہوں کہ تجھ سا دکھائی دوں میں بھی

جمال یار کبھی میرے خد و خال میں آ

اس لیے کشکول میں پڑتی ہے بھیک

ہم نے ہے لاٹھی سے لٹکایا ہوا

حاکم شہر کی خواہش کہ حکومت کی جائے

ورنہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہجرت کی جائے

مرے پنجرے کو توڑتے کیوں ہو

جب میں آزاد ہو نہیں سکتا

Recitation

بولیے