Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Armaan Jodhpuri's Photo'

ارمان جودھ پوری

1994 | راجستھان, انڈیا

ارمان جودھ پوری کے اشعار

336
Favorite

باعتبار

ساری دنیا تری ہونٹوں کی ہنسی میں گم ہے

کون دیکھے گا مری آنکھ کے پانی کی طرف

پیاسی بہت تھیں حسرتیں لو آج مر گئیں

بارش کا انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا

زندگی زلف نہیں تھی جو سنواری جاتی

زندگی اور الجھتی گئی سلجھانے میں

آخر ترے سوال کا میں کیا جواب دوں

اے میرے ہم خیال ذرا سوچنے تو دے

پہلے پہلے خوب محبت کی ہم نے

پھر ہم دونوں نے یہ رستہ چھوڑ دیا

میں نے دیکھا تو نہیں میرؔ کا دیوان مگر

جانتا ہوں تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے

وہ جس سے موت نکالے گی ایک دن آ کر

تمہیں خبر ہے اسی زندگی کی قید میں ہوں

اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہے

اور میں شک کے دائرے میں ہوں

دوریاں تم نے ہی بڑھائی تھیں

ہم تو اپنی جگہ پہ ٹھہرے ہیں

کیوں ظلم کرتی ہے دنیا ہم عشق والوں پر

ہم عشق کرتے ہیں کوئی خطا نہیں کرتے

کام ہو تو کام کرنا وقت ہو تو شاعری

نوکری اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ

میں نے اکھاڑ پھینکے ہیں بازو سے ایسے پر

جو بوجھ تھے کبھی مری اونچی اڑان میں

آخری نقصان تھا تو زندگی کا

میں نے تیرے بعد کچھ کھویا نہیں ہے

کیا ہماری بات ہم کس کام کے

سب بھروسے چل رہا شری رام کے

کیا ضرورت ہے زمانہ میں کسی دشمن کی

دوست کیا کم ہیں یہاں آگ لگانے والے

آنکھوں نے آنسوؤں کا تبرک لٹا دیا

دل کے مزار پر تری یادوں کا عرس ہے

زندگی کے سب سہارے آپ کے

ہم بھی ہیں سارے کے سارے آپ کے

تیرے جانے کے بعد جانا ہے

زندگی ہے سفر اداسی کا

ہے میرے دل کو انا اس قدر عزیز کہ وہ

تڑپنے بھی نہیں دیتا ہے آہ بھر کے مجھے

اک تبسم سے اشک باری تک

آ گیا حسن ہوشیاری تک

کم سے کم اتنا اشارہ تو کرو جاتے ہوئے

تم کبھی یاد جو آؤ تو کسے یاد کریں

زندگی کے سب سہارے آپ کے

ہم بھی ہیں سارے کے سارے آپ کے

دو بار لبوں نے بھی آپس میں لئے بوسے

جب نام لیا میں نے اک بار محمد کا

کیا ہماری بات ہم کس کام کے

سب بھروسے چل رہا شری رام کے

ہے میرے دل کو انا اس قدر عزیز کے وہ

تڑپنے بھی نہیں دیتا ہے آہ بھر کے مجھے

جس کے دم سے تھی جسم کی رونق

اس اداسی کے ہاتھ پیلے ہوئے

لبوں پہ ناچ رہا تھا مگر کہا نہ گیا

میں ایسا حرف ہوں جس کو کبھی لکھا نہ گیا

لڑکیاں ہیں بس اتنی ہی آزاد

مچھلیاں جتنی مرتبانوں میں

دو بار لبوں نے بھی آپس میں لئے بوسے

جب نام لیا میں نے اک بار محمد کا

روح بدن ذرا سی تو گھبرانی چاہیئے

تھوڑی بہت تو شرم تمہیں آنی چاہیئے

معجزہ اور بھلا اس سے بڑا کیا ہوگا

درد اس دل میں ہے گرتے ہیں تمہارے آنسو

آخری نقصان تھا تو زندگی کا

میں نے تیرے بعد کچھ کھویا نہیں ہے

جس کے دم سے تھی جسم کی رونق

اس اداسی کے ہاتھ پیلے ہوئے

کام ہو تو کام کرنا وقت ہو تو شاعری

نوکری اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ

لڑکیاں ہیں بس اتنی ہی آزاد

مچھلیاں جتنی مرتبانوں میں

آنکھوں نے آنسوؤں کا تبرک لٹا دیا

دل کے مزار پر تری یادوں کا عرس ہے

کم سے کم اتنا اشارہ تو کرو جاتے ہوئے

تم کبھی یاد جو آؤ تو کسے یاد کریں

Recitation

بولیے