اتل اجنبی کے اشعار
پتوں کو چھوڑ دیتا ہے اکثر خزاں کے وقت
خود غرضی ہی کچھ ایسی یہاں ہر شجر میں ہے
عجب خلوص عجب سادگی سے کرتا ہے
درخت نیکی بڑی خامشی سے کرتا ہے
جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
-
موضوع : میر تقی میر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سفر ہو شاہ کا یا قافلہ فقیروں کا
شجر مزاج سمجھتے ہیں راہگیروں کا
کسی درخت سے سیکھو سلیقہ جینے کا
جو دھوپ چھاؤں سے رشتہ بنائے رہتا ہے
یہ رہبر آج بھی کتنے پرانے لگتے ہیں
کہ پیڑ دور سے رستہ دکھانے لگتے ہیں