جاوید نسیمی کے اشعار
ذرا قریب سے دیکھوں تو کوئی راز کھلے
یہاں تو ہر کوئی لگتا ہے آدمی جیسا
گرنے والا ہے مرا بوجھ سنبھالے کوئی
اپنے آنسو مری پلکوں سے اٹھا لے کوئی
مٹ جانے کے آثار وراثت میں ملے ہیں
گرتے در و دیوار وراثت میں ملے ہیں
ساتھ چاول کے یہ کنکر بھی نگل جاتا ہے
بھوک میں آدمی پتھر بھی نگل جاتا ہے
مدت ہوئی کہ زندہ ہوں دیکھے بغیر اسے
وہ شخص میرے دل سے اتر تو نہیں گیا
زندہ رہنے کے لیے اسباب دے
میری آنکھوں کو تو اپنے خواب دے
سمجھنے سے رہا قاصر کہ دانستہ نہیں سمجھا
نہ جانے کیوں ہماری پیاس کو دریا نہیں سمجھا
در بدر ہو گئے تعبیر کی دھن میں کتنے
ان حسیں خوابوں سے بڑھ کر کوئی سفاک نہیں
پلکوں پہ لے کے بوجھ کہاں تک پھرا کروں
اے خواب رائیگاں میں بتا تیرا کیا کروں
چاند کا قرب لگا کیسا چلو پوچھ آئیں
آسمانوں کے سفر سے وہ پلٹ آیا ہے
دیکھنا چھوڑے نہیں خواب مری آنکھوں نے
پورا ہر چند کوئی خواب نہیں ہو پایا
بے سایہ نہ ہو جائے کہیں گھر مرا یا رب
کچھ دن سے میں جھکتا یہ شجر دیکھ رہا ہوں
جسے نہ آنے کی قسمیں میں دے کے آیا ہوں
اسی کے قدموں کی آہٹ کا انتظار بھی ہے
مجھ کو یہ محتاط اخلاص نظر اچھا لگا
اس کی دزدیدہ نگاہوں کا سفر اچھا لگا