Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khursheed Akbar's Photo'

خورشید اکبر

1959 | پٹنہ, انڈیا

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

خورشید اکبر کے اشعار

1.9K
Favorite

باعتبار

ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی

یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے

ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی

اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے

درد کا ذائقہ بتاؤں کیا

یہ علاقہ زباں سے باہر ہے

چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں

آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے

یہاں تو رسم ہے زندوں کو دفن کرنے کی

کسی بھی قبر سے مردہ کہاں نکلتا ہے

قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے

آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے

دنیا کو روندنے کا ہنر جانتا ہوں میں

لیکن یہ سوچتا ہوں کہ دنیا کے بعد کیا

بدن میں سانس لیتا ہے سمندر

مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے

زندگی! تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا

کیسی کیسی تری تصویر نکل آئی ہے

میرے اس کے بیچ کا رشتہ اک مجبور ضرورت ہے

میں سوکھے جذبوں کا ایندھن وہ ماچس کی تیلی سی

سسکتی آرزو کا درد ہوں فٹ پاتھ جیسا ہوں

کہ مجھ میں چھٹپٹاتا شہر کلکتہ بھی رہتا ہے

لہو تیور بدلتا ہے کہاں تک

مرا بیٹا سیانا ہو تو دیکھوں

غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں

آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے

بڑی بھولی ہے خرچیلی ضرورت

شہنشاہی کمائی مانگتی ہے

غریبی کاٹنا آساں نہیں ہے

وہ ساری عمر پتھر کاٹتا ہے

خود سے لکھنے کا اختیار بھی دے

ورنہ قسمت کی تختیاں لے جا

آتے آتے آئے گی دنیا داری

جاتے جاتے فاقہ مستی جائے گی

دلیلیں چھین کر میرے لبوں سے

وہ مجھ کو مجھ سے بہتر کاٹتا ہے

دل ہے کہ ترے پاؤں سے پازیب گری ہے

سنتا ہوں بہت دیر سے جھنکار کہیں کی

سلگتی پیاس نے کر لی ہے مورچہ بندی

اسی خطا پہ سمندر خلاف رہتا ہے

شہر بے آب ہوا جاتا ہے

اپنی آنکھوں میں بچا لوں پانی

کشتی کی طرح تم مجھے دریا میں اتارو

میں بیچ بھنور میں تمہیں پتوار بناؤں

شہر جب خود کفیل ہے صاحب

کون کس کا ملال کرتا ہے

نہ جانے کتنے بھنور کو رلا کے آئی ہے

یہ میری کشتیٔ جاں خود کو پار کرتی ہوئی

مٹھی سے ریت پاؤں سے کانٹا نکل نہ جائے

میں دیکھتا رہوں کہیں دنیا نکل نہ جائے

مرثیہ ہوں میں غلاموں کی خوش الہامی کا

شاہ کے حق میں قصیدہ نہیں ہونے والا

جزیرے اگ رہے ہیں پانیوں میں

مگر پختہ کنارا جا رہا ہے

خدا کے غائبانے میں کسی دن

سنو کیا شہر سارا بولتا ہے

روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں

ہنستا ہوں تو ڈھ جاتے ہیں کہسار مری جاں

اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو

کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ

شام کے تیر سے زخمی ہے خورشیدؔ کا سینہ

نور سمٹ کر سرخ کبوتر بن جاتا ہے

نہ جانے کیا لکھا تھا اس نے دیوار برہنہ پر

سلامت رہ نہ پائی ایک بھی تحریر پانی میں

سمندر آسماں اس پر ستاروں کا سفینہ

مرا مہتاب غم ہے بیکرانی دیکھنے میں

یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں

میں کس کی آنکھ کا پانی ہوں کس پتھر میں رہتا ہوں

وہ ایک آئنہ چہرے کی بات کرتا ہے

وہ ایک آئنہ پتھر سے ہے زیادہ کیا

یہ میرا خاکداں رکھا ہوا ہے

اسی میں آسماں رکھا ہوا ہے

سہل کیا بار امانت کا اٹھانا ہے فلک

میں سنبھلتا ہوں مرے ساتھ سنبھلتی ہے زمیں

جو دن ہے خاک بیاباں جو رات ہے جنگل

وہ بے پناہ مرے گھر سے ہے زیادہ کیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے