یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا
کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں
مدن موہن دانش کی پیدایش 8 ستمبر 1961 کو اتر پردیش کے مردم خیز ضلع بلیا میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی۔ مدن موہن دانش کی زندگی میں کافی اتار چڑھاؤ رہا، ان کی زندگی کے کئی برس بھوپال میں گزرے پھر روزگار کی تلاش انھیں گوالیار تک لے آئی ۔ ان کی اعلی تعلیم بھی انھیں دو شہروں میں ہوئی۔ گوالیار میں وہ آکاشوانی میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ آج وہ ملک بھر میں اپنی شاعری کی وجہ سے معروف ہیں۔
سہل و سادہ بیانیہ کے مالک مدن موہن دانش اپنے شعری وصف کی بنیاد پر ملک اور بیرون ملک میں ایک اہم پہچان رکھتے ہیں۔ زندگی اور اس کی تلخ سچائیوں سے آنکھ ملاتی ہوئی ان کی شاعری ہم عصر منظر نامے میں دور سے ہی پہچانی جاتی ہے ۔وہ زندگی کے ساتھ ساتھ دنیا اور فرد کی اجتماعی و انفرادی حسیات کو آئینہ دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس طرح کہ شعر کا حسن اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ مدن موہن دانش اپنی تازہ کاری اور نئے پن کے سبب قاری کو چونکاتے بھی ہیں، گویا مدھم سروں کی ایک لہر ہے جو قاری کو اپنی دھارا میں بہائے لئے جاتی ہے۔ موت، عشق، زندگی، رات وغیرہ ان کے پسندیدہ تلازمات ہیں، جنھیں مصرعوں کی لڑی میں پروتے ہیں اور شعر بناتے ہیں۔ ان کا شاعرانہ اسلوب نہایت اچھوتا ہے یہی سبب ہے کہ وہ اپنے قاری سے شعروں کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ چھوٹی بحروں میں بھی مدن موہن دانش اپنا کمال دکھاتے ہیں اور اس طرح کہ وہ اشعار ہمارے حافظے میں ثبت ہو جاتے ہیں۔ آج ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ان کا شعری مجموعہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا اور وہ مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری سرحدوں کو توڑتے ہوئے دبئی، قطر، شارجہ، پاکستان اور امریکہ، کناڈا وغیرہ تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت ان کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ تازہ کتاب (آسماں فرصت میں ہے) کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں اور قارئین نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ انھیں کئی اہم ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے، جن میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔
اس وقت وہ گوالیار میں مقیم ہیں اور آل انڈیا ریڈیو گوالیار سے ریٹائر ہوئے ہیں۔