نعمان شوق کے اشعار
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
کس کی دنیا میں آ گیا ہوں میں
کچھ نہ تھا میرے پاس کھونے کو
تم ملے ہو تو ڈر گیا ہوں میں
اور مت دیکھیے اب عدل جہانگیر کے خواب
اور کچھ کیجئے زنجیر ہلانے کے سوا
ہم کو ڈرا کر، آپ کو خیرات بانٹ کر
اک شخص راتوں رات جہانگیر ہو گیا
ڈر ڈر کے جاگتے ہوئے کاٹی تمام رات
گلیوں میں تیرے نام کی اتنی صدا لگی
عشق کیا ہے خوب صورت سی کوئی افواہ بس
وہ بھی میرے اور تمہارے درمیاں اڑتی ہوئی
روح کی تھاپ نہ روکو کہ قیامت ہوگی
تم کو معلوم نہیں کون کہاں رقص میں ہے
رو رو کے لوگ کہتے تھے جاتی رہے گی آنکھ
ایسا نہیں ہوا، مری بینائی بڑھ گئی
دل دے نہ دے مگر یہ ترا حسن بے مثال
واپس نہ کر فقیر کو آخر بدن تو ہے
چاہتا ہوں کہ پکارے تمہیں دن رات جہاں
ہر طرف میری ہی آواز سنائی دے مجھے
اس نے ہنس کر ہاتھ چھڑایا ہے اپنا
آج جدا ہو جانے میں آسانی ہے
ہم جیسوں نے جان گنوائی پاگل تھے
دنیا جیسی کل تھی بالکل ویسی ہے
پہنتے خاک ہیں خاک اوڑھتے بچھاتے ہیں
ہماری رائے بھی لی جائے خوش لباسی پر
وہ سانپ جس نے مجھے آج تک ڈسا بھی نہیں
تمام زہر سخن میں مرے اسی کا ہے
وہ میرے لمس سے مہتاب بن چکا ہوتا
مگر ملا بھی تو جگنو پکڑنے والوں کو
الجھتے رہتے ہو بے جان منظر میں کسی سے
ہزاروں سال کی پہچان پل بھر میں کسی سے
کوئی سمجھائے مرے مداح کو
تالیوں سے بھی بکھر سکتا ہوں میں
میں اپنے سائے میں بیٹھا تھا کتنی صدیوں سے
تمہاری دھوپ نے دیوار توڑ دی میری
میں اگر تم کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے
اپنے لکھے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں
ایسی ہی ایک شب میں کسی سے ملا تھا دل
بارش کے ساتھ ساتھ برستی ہے روشنی
فلک کا تھال ہی ہم نے الٹ ڈالا زمیں پر
تمہاری طرح کا کوئی ستارہ ڈھونڈنے میں
ذرا یہ ہاتھ میرے ہاتھ میں دو
میں اپنی دوستی سے تھک چکا ہوں
پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں
ڈوب بھی سکتی ہے میری ناؤ سوچا تک نہیں
فقیر لوگ رہے اپنے اپنے حال میں مست
نہیں تو شہر کا نقشہ بدل چکا ہوتا
میری خوشیوں سے وہ رشتہ ہے تمہارا اب تک
عید ہو جائے اگر عید مبارک کہہ دو
پاؤں کے نیچے سے پہلے کھینچ لی ساری زمیں
پیار سے پھر نام میرا شاہ عالم رکھ دیا
جان جاں مایوس مت ہو حالت بازار سے
شاید اگلے سال تک دیوانہ پن ملنے لگے
اب اسے غرقاب کرنے کا ہنر بھی سیکھ لوں
اس شکارے کو اگر پھولوں سے ڈھک سکتا ہوں میں
وہ طنز کو بھی حسن طلب جان خوش ہوئے
الٹا پڑھا گیا، مرا پیغام اور تھا
خدا معاف کرے سارے منصفوں کے گناہ
ہم ہی نے شرط لگائی تھی ہار جانے کی
یہ خواب کون دکھانے لگا ترقی کے
جب آدمی بھی عدد میں شمار ہونے لگے
موسم وجد میں جا کر میں کہاں رقص کروں
اپنی دنیا مری وحشت کے برابر کر دے
آنکھ کھل جائے تو گھر ماتم کدہ بن جائے گا
چل رہی ہے سانس جب تک چل رہا ہوں نیند میں
سنائی دیتی ہے سات آسماں میں گونج اپنی
تجھے پکار کے حیران اڑتے پھرتے ہیں
اس کا ملنا کوئی مذاق ہے کیا
بس خیالوں میں جی اٹھا ہوں میں
آئنے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار
ایک دن اپنی ہی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں
کبھی لباس کبھی بال دیکھنے والے
تجھے پتہ ہی نہیں ہم سنور چکے دل سے
خیالی دوستوں کے عکس سے کھیلو گے کب تک
میرے بچے کبھی مل لو بھرے گھر میں کسی سے