Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saba Akbarabadi's Photo'

صبا اکبرآبادی

1908 - 1991 | کراچی, پاکستان

صبا اکبرآبادی کے اشعار

14.6K
Favorite

باعتبار

جب عشق تھا تو دل کا اجالا تھا دہر میں

کوئی چراغ نور بداماں نہیں ہے اب

ٹکڑے ہوئے تھے دامن ہستی کے جس قدر

دلق گدائے عشق کے پیوند ہو گئے

ایسا بھی کوئی غم ہے جو تم سے نہیں پایا

ایسا بھی کوئی درد ہے جو دل میں نہیں ہے

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے

آدمی آدمی اکیلا ہے

سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی

بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں

کام آئے گی مزاج عشق کی آشفتگی

اور کچھ ہو یا نہ ہو ہنگامۂ محفل سہی

کب تک یقین عشق ہمیں خود نہ آئے گا

کب تک مکاں کا حال کہیں گے مکیں سے ہم

آئینہ کیسا تھا وہ شام شکیبائی کا

سامنا کر نہ سکا اپنی ہی بینائی کا

دوستوں سے یہ کہوں کیا کہ مری قدر کرو

ابھی ارزاں ہوں کبھی پاؤ گے نایاب مجھے

غم دوراں کو بڑی چیز سمجھ رکھا تھا

کام جب تک نہ پڑا تھا غم جاناں سے ہمیں

ہوس پرست ادیبوں پہ حد لگے کوئی

تباہ کرتے ہیں لفظوں کی عصمتیں کیا کیا

کمال ضبط میں یوں اشک مضطر ٹوٹ کر نکلا

اسیر غم کوئی زنداں سے جیسے چھوٹ کر نکلا

کیا مآل دہر ہے میری محبت کا مآل

ہیں ابھی لاکھوں فسانے منتظر آغاز کے

گئے تھے نقد گرانمایۂ خلوص کے ساتھ

خرید لائے ہیں سستی عداوتیں کیا کیا

آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم

کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم

کفر و اسلام کے جھگڑے کو چکا دو صاحب

جنگ آپس میں کریں شیخ و برہمن کب تک

مسافران رہ شوق سست گام ہو کیوں

قدم بڑھائے ہوئے ہاں قدم بڑھائے ہوئے

اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک

رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں

ازل سے آج تک سجدے کئے اور یہ نہیں سوچا

کسی کا آستاں کیوں ہے کسی کا سنگ در کیا ہے

رواں ہے قافلۂ روح التفات ابھی

ہماری راہ سے ہٹ جائے کائنات ابھی

سو بار جس کو دیکھ کے حیران ہو چکے

جی چاہتا ہے پھر اسے اک بار دیکھنا

عشق آتا نہ اگر راہ نمائی کے لئے

آپ بھی واقف منزل نہیں ہونے پاتے

کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم

الجھے ہوئے ہیں آج بھی دنیا و دیں سے ہم

خواہشوں نے دل کو تصویر تمنا کر دیا

اک نظر نے آئنے میں عکس گہرا کر دیا

کون اٹھائے عشق کے انجام کی جانب نظر

کچھ اثر باقی ہیں اب تک حیرت آغاز کے

آپ آئے ہیں سو اب گھر میں اجالا ہے بہت

کہیے جلتی رہے یا شمع بجھا دی جائے

اچھا ہوا کہ سب در و دیوار گر پڑے

اب روشنی تو ہے مرے گھر میں ہوا تو ہے

بال و پر کی جنبشوں کو کام میں لاتے رہو

اے قفس والو قفس سے چھوٹنا مشکل سہی

روشنی خود بھی چراغوں سے الگ رہتی ہے

دل میں جو رہتے ہیں وہ دل نہیں ہونے پاتے

پستی نے بلندی کو بنایا ہے حقیقت

یہ رفعت افلاک بھی محتاج زمیں ہے

غلط فہمیوں میں جوانی گزاری

کبھی وہ نہ سمجھے کبھی ہم نہ سمجھے

ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں

ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا

اس شان کا آشفتہ و حیراں نہ ملے گا

آئینہ سے فرصت ہو تو تصویر صباؔ دیکھ

اک روز چھین لے گی ہمیں سے زمیں ہمیں

چھینیں گے کیا زمیں کے خزانے زمیں سے ہم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے