شاد لکھنوی کے اشعار
وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے
حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے
عشق مژگاں میں ہزاروں نے گلے کٹوائے
عید قرباں میں جو وہ لے کے چھری بیٹھ گیا
-
موضوع : عید
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
چشم پوشوں سے رہوں شادؔ میں کیا آئینہ دار
منہ پہ کانا نہیں کہتا ہے کوئی کانے کو
صحبت وصل ہے مسدود ہیں در ہائے حجاب
نہیں معلوم یہ کس آہ سے شرم آتی ہے
جب جیتے جی نہ پوچھا پوچھیں گے کیا مرے پر
مردے کی روح کو بھی گھر سے نکالتے ہیں
اس سے بہتر اور کہہ لیں گے اگر زندہ ہیں شادؔ
کھو گیا پہلا جو وہ دیوان کیا تھا کچھ نہ تھا
ہر ایک جواہر بیش بہا چمکا تو یہ پتھر کہنے لگا
جو سنگ ترا وہ سنگ مرا تو اور نہیں میں اور نہیں