ضیاء الحق قاسمی کے اشعار
مجھے اپنی بیوی پہ فخر ہے مجھے اپنے سالے پہ ناز ہے
نہیں دوش دونوں کا اس میں کچھ مجھے ڈانٹتا کوئی اور ہے
وہ بھری بزم میں کہتی ہے مجھے انکل جی
ڈپلومیسی ہے یہ کیسی مری ہمسائی کی
میں جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجھا نکلا
بات نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی
کبھی لکھنے لکھانے کی تو نوبت ہی نہیں آتی
میں ناڑا ڈال لیتا ہوں ضرورت جب بھی پڑتی ہے
کہتے ہیں کہ لیلیٰ کا تعلق تھا عرب سے
یہ رنگ تو افریقہ و مکران میں دیکھا
مرے رعب میں تو وہ آ گیا مرے سامنے تو وہ جھک گیا
مجھے لات کھا کے ہوئی خبر مجھے پیٹتا کوئی اور ہے
خوش ہوتے ہیں ہم لوگ اگر کوئی حسینہ
اس عمر ہم پر کوئی تہمت ہی لگائے
نکالیں ٹانگ سے اور جوڑ دی ہیں دل کے پہلو میں
لگا ہے خوب کیا کم خواب میں یہ ٹانگ کا پیوند
ہے عجب نظام زکوٰۃ کا مرے ملک میں مرے دیس میں
اسے کاٹتا کوئی اور ہے اسے بانٹتا کوئی اور ہے
سر بزم مجھ کو اٹھا دیا مجھے مار مار لٹا دیا
مجھے مارتا کوئی اور ہے ولے ہانپتا کوئی اور ہے