Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ضیا ضمیر کے اشعار

4.6K
Favorite

باعتبار

دشمن جاں ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے

ایسا اس شہر میں اک شخص ہمارا بھی ہے

اس کو نئے سفر میں نئے ہم سفر کے ساتھ

دل خوش ہوا ہے کیوں یہ ضیا دیکھتے ہوئے

تم نے جو کتابوں کے حوالے کیے جاناں

وہ پھول تو بالوں میں سجانے کے لئے تھے

مسئلہ تھا تو بس انا کا تھا

فاصلے درمیاں کے تھے ہی نہیں

کچھ ظلم و ستم سہنے کی عادت بھی ہے ہم کو

کچھ یہ ہے کہ دربار میں سنوائی بھی کم ہے

غضب تو یہ ہے وہ ایسا کہہ کے خوشی کا اظہار کر رہے تھے

کہ ہم نے دستاریں بیچ دی ہیں سروں کو لیکن بچا لیا ہے

ملک تو ملک گھروں پر بھی ہے قبضہ اس کا

اب تو گھر بھی نہیں چلتے ہیں سیاست کے بغیر

ہم تو تیری کہانی لکھ آئے

تو نے لکھا ہے امتحان میں کیا

زندگی سے خوشی کی ہے امید

پر یہ امید بھی ذرا سی ہے

آج یہ شام بھیگتی کیوں ہے

تم کہیں چھپ کے رو رہی ہو کیا

زندگی روک کے اکثر یہی کہتی ہے مجھے

تجھ کو جانا تھا کدھر اور کدھر آ گیا ہے

نیند کا اس کو نشہ ہم کو جگانے کی ہوس

خواب میں آتے ہوئے نیند چراتے ہوئے ہم

اس سے کہنا کہ برا خواب تھا اب یاد نہیں

میرے بارے میں جو پوچھے کبھی دنیا تجھ سے

عشق کے ماروں کو آداب کہاں آتے ہیں

تیرے کوچے میں چلے آئے اجازت کے بغیر

میں نے ہنس کر ڈانٹ دیا تھا پیار کے پہلے شبدوں پر

اس نے پھر کوشش ہی نہیں کی وہ خوددار بلا کی تھی

اس موڑ پہ رشتہ ہے ہمارا کہ اگر ہم

بیٹھیں گے کبھی ساتھ تو تنہائی بنے گی

کوئی آساں ہے بھلا رشتے کو قائم رکھنا

گرتی دیوار ہے ہم جس کو سنبھالے ہوئے ہیں

پتھر مار کے چوراہے پر اک عورت کو مار دیا

سب نے مل کر پھر یہ سوچا اس نے غلطی کیا کی تھی

ہم کو اتنا گرا پڑا نہ سمجھ

اے زمانے کسی کا پیار ہیں ہم

کیوں بھلا کچے مکانوں کا تمہیں آیا خیال

تم تو دریا تھے تمہیں تیز گزر جانا تھا

خشک آنکھیں لئے ہنستا ہوا دیکھو جس کو

اس کو صحرا نہیں کہہ دینا سمندر کہنا

اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں

روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں

کسی بچے سے پنجرا کھل گیا ہے

پرندوں کی رہائی ہو رہی ہے

ہنسی میں ٹال دے پھر سے ہماری ہر خواہش

پھر ایک بار تھپک دے ہمارا گال ذرا

بد دعا اپنے لئے کی تو بہت تھی میں نے

ہاں مگر راہ میں حائل جو دعا تھی تیری

مرتے مرتے ہم کو اک بے چینی سی تھی

ایک پرانا دشمن تھا جو یاد آیا تھا

آپ تو آئیں گے ہی خاص تماشائی جو ہیں

دار پے ہم جو کریں گے وہ غضب دیکھئے گا

یہ عشق چیز عجب ہے کہ اس کو کیا کہئے

وہیں پہ تھوڑا سا کم ہے جہاں زیادہ ہے

ہونٹوں سے اس درد کی خوشبو آ کر جسم میں پھیل گئی

کتنا درد اکٹھا تھا اس ٹھنڈی سی پیشانی میں

ساتھ ساحل پہ گزرتے ہوئے دیکھی تھی کبھی

یاد ہے اب بھی سمندر میں اترتی ہوئی شام

داناؤں نے کی دانائی موند لیں آنکھیں

چوراہے پر قتل ہوا پاگل نے دیکھا

بہت اچھا ہے کچھ چیزیں نئی آئی ہیں گھر میں

مگر دیکھو کئی چیزیں پرانی پڑ رہی ہیں

مختصر کیجئے کہانی کو

آپ تو دے رہے ہیں طول ہمیں

درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں

دیکھیے روح سے کب داغ پرانے جائیں

کسی کی آنکھوں میں جل بجھے ہیں کسی کا چہرہ لگا لیا ہے

یہ مصلحت ہے یا بزدلی ہے کہ ہم نے خود کو چھپا لیا ہے

تجھ سے کہا تھا خوشبوئیں اس کے بدن کی لائیو

میرا یہ کام آج تک تو نے سبا نہیں کیا

لہر خود پر ہے پشیمان کہ اس کی زد میں

ننھے ہاتھوں سے بنا ریت کا گھر آ گیا ہے

میں نہیں تھا تو یہاں واقعی ویرانہ تھا

میرے آنے سے یہ ویرانہ کہاں کھو گیا ہے

درد کے سارے ہی قصوں کی یاد دہانی کر لینا

ہجر کی رات بہت لمبی ہے ایک کہانی کم نہ پڑے

ہجر کی رات وہ خط بھی جلائے تو کیسے

اس کے گھر میں کوئی آتش دان نہیں

محفل میرے دم سے محفل پھر بھی مجھ میں

ایک بھیانک تنہائی بھی پوشیدہ ہے

کیسی تعبیر کی حسرت کہ ضیاؔ برسوں سے

نامراد آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں خواب کوئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے