aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
परिणाम "process"
अल्लामा पॉकेट मार
शायर
अख़्तर डेक्कन प्रेस अफ़ज़लगंज, हैदराबाद
पर्काशक
युनाईटेड प्रोसेस, नई दिल्ली
पंजाब प्रेस, सिआलकोट
जे. एम. प्रोसेस, चेन्नई
डाइमंड प्रोसेस, हैदराबाद
नामी प्रेस, लखनऊ
अबुल उलाई प्रेस, आगरा
प्रिंट एंड प्रोसेस, नई दिल्ली
अोक्सफोर्ड युनिवर्सिटी प्रेस
निज़ामी प्रेस, लखनऊ
निज़ाम-ए-दकन प्रेस, हैदराबाद
मुस्लिम युनिर्वसिटी प्रेस, अलीगढ़
मतबा हमीदिया स्टीम प्रेस, लाहौर
शमसुल इस्लाम प्रेस, हैदराबाद
اس سلسلہ میں کچھ حقیقتوں کو سمجھ لینا چاہیے۔ اردو غزل دور جاگیرداری Feudal age کے انحطاطی زمانہ میں پیدا ہوئی۔ اس کی تمام لطافتیں مجہولیت کے محاسن لیے ہوئے تھیں، اگرچہ کبھی کبھی جیسے آتشؔ کے یہاں جوش عمل کی آب و تاب بھی غزل کے چہرے پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ پھر اردو غزل باوجود اپنی ہمہ گیری و آفاقیت کے ایک طبقہ کی شاعری تھی۔ایک اور بات اردو غزل میں ایسی تھی جو ہندوستان کے خمیر و ضمیر کو کھٹکتی تھی اور وہ تھی حیات و کائنات سے ناآہنگی۔ اردو غزل کی عموماً یہ بدتوفیقی رہی ہے کہ زندگی کو وہ اس طرح قبول نہیں کرتی تھی جس کی مثالیں ہندوستان کے قدیم ادب کے اعلیٰ ترین کارناموں اور روایتوں میں ملتی ہیں۔ میں نے اس کے خلاف چوتھائی صدی پہلے آواز اٹھائی تھی۔ مجھے آج یہ کہتے ہوئے اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ میری آواز بیکار نہیں گئی اور ادھر کچھ برسوں سے اردو غزل حیات و کائنات کو سینے سے لگاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دنیائے عنصری کی طہارت کا احساس نئے غزل گویوں کو ہو چلا ہے۔ غزل کے مزاج، اس کے دل کی دھڑکن، اس کے ایمان میں یہ بڑی اہم تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ غزل کی داخلی ٹکنیک میں یہ تبدیلی ایک کا یا پلٹ یا Reverse Process کا مرتبہ رکھتی ہے۔
ترجمے کے بارے میں سوالات اور مسائل کا گہرا تعلق زبان کی اصل اور نوعیت کے بارے میں سوالات سے ہے۔ اگر کوئی ایسی واحد قدیمی زبان نہیں تھی جسے ہم ام الالسنہ کہہ سکیں اور اگر ہر زبان اپنی جگہ بے عدیل و بےنظیر ہے، تب تو ترجمہ ناممکن ہے۔ چوں کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی نہ کسی طرح کا ترجمہ ممکن ہے، اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کبھی کوئی قدیم...
ساتھ ہی اسکول جاتے اور دونوں ہنستے کھیلتے ساتھ ہی واپس آتے تھے۔ فرقان احمد اور وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر سڑک کراس کرتے۔ یہاں سے ٹرک پورٹ کا سامان لے کر شہر کے سب سے بڑے ٹرک اڈے ماری پور پر آتے اور پھر کہیں آگے نکل جاتے۔ نیلو کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرنا ایک مرحلہ ہوتا۔اس سے سامنے سے آنے والی ٹریفک کی اسپیڈ اور اپنی رفتار کی ہم آہنگی میں بڑی دشواری...
Muhammad, the last prophet and founder of Islam, was born in Mecca (c. 570) in the tribe of Quraish. His father, Abdullah, had already passed away before he was born and his mother, Amena, died when he was only six years old. He was looked after by his paternal grandfather, Abdul Muttalib, who too left this world when he was only eight. He was then...
غالب کا ایک شعر ہے، آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے غالب کے اس شعر میں تخلیقی عمل کے جن مراحل کا دکر ہوا ہے ان میں بالترتیب غیب، مضمون، خیال، آواز اور خامہ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ غیب وہ منطقہ ہے جس میں زماں اور مکاں کی دوئی ناپید ہے، جہاں لامتناہیت تمام حدودکو عبور کرچکی ہے۔ سارے نشیب وفراز اورجزرومد ہموار ہوگئے ہیں۔ یہ ایک طرح کا ’’خالی پن‘‘ یا Void ہے جس میں اندر اور باہر کی تفریق تک موجود نہیں ہے۔ پہلے اور بعد کی تقسیم بھی مٹ گئی ہے۔ تاہم ’’نہ ہونے‘‘ کا یہ عالم ایک ایسی موجودگی بھی ہے جس سے وقتاً فوقتاً ’ہونے‘ کا کوندا باہر کو لپکتا ہے۔ غالب نے اس کوندے کو ’’مضمون‘‘ کا نام دیا ہے۔ ہمارے ہاں ’’مضمون‘‘ کا لفظ بالعموم موضوع یا معنی یاداخلی تجربہ کی نشاندہی کے لئے مختص رہا ہے۔ ممکن ہے شعوری سطح پر غالب کے پیش نظر بھی مضمون کا یہی مفہوم ہو مگر لاشعوری سطح پر غالب کے اس شعر میں مضمون کا لفظ ’’کوندے‘‘ کے مفہوم ہی میں استعمال ہوا ہے۔ کوندا جو ایک ایسی نورانی عبارت ہے جس کا کوئی متعین معنی برائے ترسیل نہیں ہے (کوہ طور کا واقعتاً پیش نظر رہے جہاں اس کوندے نے نظروں کو خیرہ کردیا تھا اوریوں ناقابل ترسیل ہونے کا ثبوت مہیا کردیا تھا) گویا مضمون ایک ایسی تجرید ہے جو قوسوں، لکیروں، زاویوں یا بقول دریدا TRACES PATHS CHANNELS GROOVES TRACKS اور FURROWS پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طرح کا دکھائی نہ دینے والا خاکہ یا بلیوپرنٹ ہے، اقلیدس کا ایک غیرمربوط مظہر جس نے ابھی اپنی پیشانی پر معنی کا ایک تلک نہیں لگایا۔ مگر بعد ازاں لکیروں اور TRACES کی حامل اس تحریر پر ’’خیال‘‘ کے نقوش ابھرنے لگتے ہیں یعنی صورتیں اور ICONS نمودار ہوتے ہیں۔ خیال آفرینی کے اس عمل کو بت گری کا عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ نفسیات والے آرکی ٹائپ کو نظرنہ آنے والی کھائی سے موسوم کرتے ہیں مگر جب یہ کھائی صورت پذیر ہوتی ہے تو اسے Archetypal Image کا نام دیتے ہیں یہی عمل مضمون کے خیال میں منتقل ہونے میں دکھائی دیتا ہے۔ غالب یہ کہہ رہا ہے کہ شعر وجود میں آنے کے لئے متعدد منازل سے گزرتا ہے ان میں سے پہلی منزل ’’غیب‘‘ ہے جو ایک بے انت خالی پن کا وہ عالم ہے جو اصلاً ’’ہونے‘‘ کا منبع اور مصدر ہے دوسری منزل اس سلوٹ یا کروٹ کی ہے جو ایک نورانی لکیر کی طرح، غیب کی سفید بے داغ چادر پر نمودار ہوتی ہے۔ تیسری منزل خیال آفرینی کا وہ جہاں ہے جس میں لکیریں اور سلوٹیں جڑ کر اور رنگوں کو خود میں جذب کرکے صورتوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ غالب کے اس شعر میں اگلا مرحلہ ’’نوائے سروش‘‘ کا ہے جو صریر خامہ سے ایک مختلف شے متصور ہوتی ہے۔ مگر غالب اس بات کو نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک صریر خامہ اصلاً وہی نوائے سروش ہے جو مضمون کے کوندے کے ساتھ ہی لپکی تھی لیکن جو بعد ازاں بصورت ’’صریر خامہ‘‘ سنائی دی۔ ویسے بھی کوندے اور آواز میں جو وقفہ محسوس ہوتا ہے وہ دراصل رفتار کے فرق کا زائیدہ ہے۔ روشنی کی رفتار، آواز کی رفتار سے بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا یوں لگتا ہے جیسے روشنی پہلے وجود میں آئی اور آواز بعد میں حالانکہ دونوں نے بیک وقت جنم لیا تھا تاہم رفتار کی تیزی کے باعث روشنی تو فی الفور پہنچ گئی لیکن آواز نے پہنچنے میں دیر کردی۔ غالب نے اس نازک فرق کو خوب پہچانا ہے اوراس لئے صریر خامہ کو نوائے سروش کا نام دیا ہے جو مضمون کے کوندے کے ساتھ ہی وجود میں آگئی تھی۔ اگریہ بات ہے تو پھر روشنی اور آواز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر فرق ہے تو فقط یہ کہ آواز روشنی کا نطق ہے۔ بے شک کائنات کی تخلیق روشنی کے ایک کوندے سے ہوئی مگر آپ اسے آواز کا کوندا بھی کہہ سکتے ہیں گویا تخلیق کا منبع اور مصدر وہ نورانی لکیر ہے جس نے ’’کن‘‘ میں اپنا مظاہرہ کیا تھا۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یہ فرق ’’صورت‘‘ اور ’’معنی‘‘ کا فرق بھی ہے۔ معنی کواپنی ترسیل کے لئے آواز درکار ہے۔ معنی کو اگر ایک مسافر کہا جائے تو آواز وہ ناؤ ہے جس میں بیٹھ کر وہ سفر کرتا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ معنی نے آواز کی ناؤ کہیں باہر سے حاصل نہیں کی بلکہ اپنی ہی پسلی سے برآمد کی ہے ہر حرف یا Phonemeایک آواز ہے مگر جب حروف جڑ کر لفظ یا Morpheme بنتے ہیں تو دراصل نشان یا Sign بن جاتے ہیں اورنشاندہی کرنے لگتے ہیں۔ آواز کا خالص روپ یعنی حرف ایک ایسا مظہر ہے جس میں Signification تو ہے مگر وہ خود نشان نہیں ہے وہ دال یا Signifier ہے جو ہمیشہ مدلل یعنی Signified کی طرف اشارہ کرتا ہے گویا ایک خاص معنی کی پیدائش کا باعث بنتا ہے مگر ’’دال‘‘ معنی نہیں بلکہ معنویت ہے۔ یہی فرق نشان اور علامت میں بھی ہے۔ نشان وہ معنی ہے جو دال پر ثبت ہوگیا ہے مگر جب دال پر کوئی خاص معنی ثبت نہ ہو بلکہ وہ معنویت کی اطراف کو کھولدے تو علامتی کہلائے گا۔ کسی بھی لفظ یا شے کو ہم علامت نہیں کہہ سکتے لیکن اگر تخلیقی عمل کی مدد سے کوئی لفظ یا شے اتنی صیقل ہوجائے کہ منعکس کرنے لگے تو ہم کہیں گے کہ اب یہ لفظ یا شے علامتی ہوگئی ہے۔ آواز بجائے خود علامتیت کی حامل ہے مگر جب وہ کسی خاص معنی پر مرتکز ہوجائے تو وہ بھی لسانی نشان بن جاتی ہے۔ تاہم آواز کا معنی آفریں روپ وہ حرف یا نورانی کوندا ہے جو مجسم Signification ہے۔ آواز Logo-Centrism کی مظہر ہے اس میں تحکم، تفاخر اور کرگزرنے کا عمل پوشیدہ ہے۔ اسی لئے مذاہب اور فلسفوں میں ’’کلام‘‘ کو تحریر کے مقابلے میں زیادہ اہم گردانا گیا ہے۔ انسانی دماغ کے تخلیق کردہ تمام جڑواں تخالف یعنی Binary Opposites میں ایک جزو اولیت، رفعت، صداقت، ترفع اور ’’ہونے‘‘ یعنی Absence کا مظہر متصور ہوا ہے۔ جڑواں تخالف کے اس نظریے کے تحت ’’کلام‘‘ کے مقابلے میں تحریر کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس بات پر زور دینے کے لئے کہ کلام افضل اور برتر ہے اور تحریر ادنیٰ اور کمتر! اس مضمون میں ایک نمایاں مثال یونانی فلاسفروں کی ہے جو گفتار کے غازی تھے اور تحریر کو ایک ادنیٰ عملی قرار دیتے تھے یہی فکری ورثہ بعض دیگر فکری سلسلوں کو بھی منتقل ہوا ہے۔ جہاں Essence Being اور Langue کو افضل جب کہ Experience Becoming اور Parole کو ادنیٰ متصور کیا گیا۔ البتہ چندفکری سلسلوں میں بات اس کے برعکس بھی کہی گئی۔ مثلاً دریدا جس نے سوسپور کی لانگ کی تقدیم اور پارول کی تاخیر کے موقف کی ساخت شکنی کرتے ہوئے ’’تحریر‘‘ کو ’’تقریر‘‘ کا پیش رو قرار دیا۔ دریدا کا یہ موقف تھا کہ ہر معنی یا لکیریں انسانی ذہن کے اندر آواز کی صورت میں نہیں بلکہ عبارت کی صورت میں محفوظ ہوتی ہیں۔ گویا ذہن کی سلیٹ پر لکھ دی جاتی ہیں۔ دریدا سے قبل علامت پسند شعرا نے بھی دنیا کو ایک تحریر متصور کیا تھا اور وہ دنیا کے نقوش اور پیٹرن اور نشانوں کو پڑھنے کی کوشش میں تھے انہیں یہ تمام نقوش اور پیٹرن ہمہ وقت آپس میں خط و کتابت کرتے نظر آتے تھے۔ ملارمے نے تویہ تک لکھ دیا تھا کہ الفاظ طوفان کی زد میں آئی ہوئی وہ کشتیاں ہیں جو کاغذ کی سفیدی پر اپنے سفر کی داستان رقم کرتی ہیں۔ غالب اپنے اس شعر میں اس بات کا اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ صریر خامہ دراصل نوائے سروش ہے بظاہر اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالب آواز یا کلام یا کن کے تقدم کا علمبردار ہے لیکن ’’صریر خامہ‘‘ کے الفاظ ایک اورہی کہانی سنا رہے ہیں کیونکہ وہ صریر یا نوا کو خامہ کی کارکردگی کا سبب نہیں بلکہ نتیجہ قرار دے رہے ہیں گویا غالب کے نزدیک اصل اہمیت خامہ کو حاصل ہے جو صریر کو وجود میں لاتا ہے اور ’’صریر‘‘ بقول اس کے نوائے سروش ہی کا دوسرا نام ہے۔ بیسویں صدی نے کائنات کی تفہیم کے سلسلے میں تحریر کی کارکردگی کو بڑی اہمیت دی ہے۔ مثلاً حیاتیات کے حوالے سے یہ کہا گیاہے کہ زندہ خلیہ میں موجود DNAکی اپنی ایک زبان ہے جو چار حروف پر مشتمل ہے۔ اس کے مقابلے میں ایمونوایسڈز کی وہ زبان ہے جو بیس حروف پر مشتمل ہے۔ تخلیق کاری کے عمل میں DNAاپنے قاصد یعنی RNAکے ذریعے ایمونوایسڈز کی فیکٹری کو خط بھیجتا ہے جس کا فوری طورپر ایک پراسرار طریق سے ایمونوایسیڈز کی بیس حرفی زبان میں ترجمہ ہوجاتا ہے۔ یہ گویا بلیوپرنٹ کی ترسیل کا وہ عمل ہے جس کے مطابق مطلوبہ پروٹین بننے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موروثی ہدایات کی یہ ترسیل آواز سے نہیں بلکہ قوسوں، لکیروں اور دائروں میں بند ہدایات کے ذریعہ ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کام گفتار کے بجائے لکھت کرتی ہے۔ کچھ یہی حال طبیعات کی دنیا کا ہے۔ مشہور سائنس دان Lanz R-Piggels نے لکھا ہے کہ کوانٹم پارٹیکلز کی دنیا اصلاً زبان کی طرح ہے۔ زبان اپنے حروف تہجی، اپنے اوقاف اور اعراب کے مطابق الفاظ اور جملے مرتب کرتی ہے۔ اس طرح کائنات کے بنیادی اجزاء مثلاً سٹرنگز، کوارکس، لپٹونز اور گلواونز بھی حروف تہجی کے مماثل ہیں۔ ہر طرف فطرت کی یہ ابجد کار فرما نظر آتی ہے۔ پارٹیکلز اس کے حروف ہیں، ایٹم اس کے الفاظ ہیں اور سالمے یعنی Molecules اس کے جملے ہیں۔ ان ہی سے یہ کائنات لکھی گئی ہے۔ حیاتیات اور طبیعات نے لکھنے کے عمل کو جو اہمیت دی ہے اوردریدا اوراس کے ہم نواؤں نے گفتار کے مقابلے میں ’’تحریر‘‘ کو جس طرح افضل گردانا ہے یہ سب بیسویں صدی کی سائنسی اور فکری پیش رفت کا ثمر ہے مگر آج سے بہت پہلے قرآن حکیم نے لکھنے کے عمل کو جس طرح افضل اور برتر جانا، اس کی مثال کسی اور فکری نظام میں نظر نہیں آتی۔ اسلام سے قبل نئی انجیل نے متکلم لفظ کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا مگراس کے کم وبیش سات سوبرس بعد قرآن حکیم نے پڑھنے کے عمل کو بذریعہ قلم آگے بڑھانے کی تلقین کی۔ لفظ سے قلم تک کا یہ فاصلہ ایک انقلابی نوعیت کا تھا جس کا یہ مطلب تھا کہ تحریر کا اپنا ایک فعال وجود ہے یاشاید یہ کہ کائنات بجائے خود ایک طرح کی تحریر یا Sign System ہے ویسے بھی قرآن حکیم میں نشانیوں یا Signs کا ذکر بار بار آیا ہے جو ایک لمحہ فکریہ مہیا کرتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس قرآنی نظریے کی صدائے بازگشت یورپ کی نشاہ الثانیہ میں بھی سنائی دی ہے۔ بقول فوکو جب نشاۃ الثانیہ کا زمانہ آیا تواس میں دنیا کو ایک کتاب قرار دیا گیا۔ رچرڈ ہالینڈ کے الفاظ میں، What we now see as the natural world appears in the Rennoseme as a great article a great book in which God inscribes signs and clues and an endless play of overlapping resemblances for men to interpret. (بحوالہ کتاب Superstructoralosm) یہ ساری بات قرآن حکیم سے ماخوذ ہے۔ مگر رچرڈ ہالینڈ نے بوجوہ قرآنی حوالہ دینے سے اجتناب کیا ہے۔ غالب کے زیرنظرشعر کے عام مفہوم کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب تخلیق کار کے قلم کی آواز کو نوائے سروش گردانتا ہے اور تخلیق کار کو محض ایک ذریعہ سمجھتا ہے جسے ’’مضمون‘‘ اپنے اظہار کے لئے بروئ ےکار لاتا ہے۔ لیکن اس شعر کی اطراف کو کھولنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غالب نے تخلیق کاری کے عمل کو محض خوشہ چینی کا عمل قرار نہیں دیا۔ اس نے اس کے چار مراحل کا ذکر کیا ہے۔ پہلا ’’غائب‘‘ کا مرحلہ جو تحریر اور تقریر دو نوں سے ماورا ہے۔ دوسرا تحریر کا مرحلہ جب عبارت کوندوں، لکیروں، قوسوں، Traces اور Tracks کی صورت غیب کے ناموجود پر بطور ایک خاکہ نمودار ہوتی ہے۔ اس کے بعد ’’خیال‘‘ کا مرحلہ جب اس خاکے پر تصویریں بنتی ہیں۔ چوتھا مرحلہ ترسیل کا ہے جب آواز تحریر کو دوسروں تک پہنچاتی ہے جیسے آر این اے، ڈی این اے کی ترسیل کرتا ہے۔ لہٰذا غائب کے مرحلے کے بعد اولیت ’’مضمون‘‘ کی تحریر اور خیال کی تجسیم کوحاصل ہے نہ کہ آواز کو جو ہر چند کہ ان کے ساتھ ہی پیدا ہوگئی تھی مگر جب قدرے تاخیر سے اپنی منزَ پر پہنچی۔ غالب کے اس شعر میں تحریر کو مقدم اور افضل قرار دینے کی جو جہت نمودار ہوئی ہے اس سے شعر کے عام مفہوم میں نئے ابعاد پیدا ہوگئے ہیں۔ اب یہ شعر کسی ایک معنی تک محدود نہیں رہا بلکہ تخلیق کاری کے Process کو بیان کرنے لگا ہے۔ دوسرے لفظوں میں Sign کے بجائے Significationکو اور ایک خاص معنی کے بجائے معنویت کے جہان کے دروازے کھول رہا ہے۔ آخر میں وضاحت احوال کے لئے تخلیق کاری کے اس سارے عمل کوجسے غالب نے اپنا موضوع بنایا ہے ایک مثال کے ذریعہ بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ فرض کیجئے کہ آسمان پر بادل لہروں اور ابرپاروں کی طرح نہیں بلکہ ایک سفید یا سیاہ چادر کی طرح محیط ہے اسے آپ غائب کا عالم بھی کہہ سکتے ہیں مگرپھر اچانک اس بے داغ چادر کے اندرسے بجلی کا ایک کوندا لپکتا ہے جو چادر پر ایک نورانی عابرت لکھ دیتا ہے مگراس کوندے کی ایک اپنی کڑک بھی ہے جو کوندے کی روشنی کے خاصی دیر بعد اہل زمین تک پہنچتی ہے۔ تخلیقی عمل میں قلم یا خامہ جو بیک وقت تحریر میں تھی اور صرر بھی۔ تاہم اس عبارت کا تفاعل کچھ یوں ہے کہ قلم سے لکھی ہوئی تحریر یا موئے قلم سے بنائی ہوئی تصویر توآن واحد میں ہم تک آجاتی ہے مگراس عبارت سے منسلک آواز قدرے تاخیر سے ہم تک پہنچتی ہے۔ یوں غالب نے تخلیق کاری کے عمل میں تحریر کی اہمیت کو بڑی خوبی سے اجاگر کر دیا ہے۔
इश्क़ की कहानी में शिकवे शिकायतों की अपनी एक जगह और अपना एक लुत्फ़ है। इस मौक़े पर आशिक़ का कमाल ये होता है कि वो माशूक़ के ज़ालिम-ओ-जफ़ा और उस की बे-एतिनाई का शिकवा इस तौर पर करता है कि माशूक़ मुद्दुआ भी पा जाए और आशिक़ बद-नाम भी न हो। इश्क़ की कहानी का ये दिल-चस्प हिस्सा हमारे इस इन्तिख़ाब में पढ़िए।
मुसाफ़िर शायरी और ज़िन्दगी दोनों का एक दिलचस्प किरदार है। ज़िन्दगी यूँ तो ख़ुद भी एक सफ़र है और हम सब मुसाफिर। मंज़िल पर पहुंचने की आरज़ू किस तरह उसे तमाम परेशानियों के बावजूद सरगर्म-ए-सफ़र रखती है और बाज़ औक़ात किस तरह मंज़िलें भी साथ-साथ चलने लगती हैं, इसका अंदाज़ा मुसाफ़िर शायरी की रौशनी में लगाना आसान हो जाता है।
शमा रात भर रौशनी लुटाने के लिए जलती रहती है, सब उस के फ़ैज़ उठाते हैं लेकिन उस के अपने दुख और कर्ब को कोई नहीं समझता। किस तरह से सियाह काली रात उस के ऊपर गुज़रती है उसे कोई नहीं जानता। तख़्लीक़ कारों ने रौशनी के पीछे की उन तमाम अन-कही बातों को ज़बान दी है। ख़याल रहे कि शायरी में शमा और पर्वाना अपने लफ़्ज़ी मानी और माद्दी शक्लों से बहुत आगे निकल जिंदगी की मुतनव्वे सूरतों की अलामत के तौर मुस्तामल हैं।
प्रॉसेसپراسس
process
Patras Ke Mazameen
पतरस बुख़ारी
लेख
Aab-e-Gum
मुश्ताक़ अहमद यूसुफ़ी
गद्य/नस्र
Urdu Ki Akhri Kitab
इब्न-ए-इंशा
Urdu Nasr Ka Fanni Irtiqa
फ़रमान फ़तेहपुरी
आलोचना
Dr. Nazeer Ahmad Ki Kahani Kuchh Meri Aur Kuchh Unki Zabani
मिर्ज़ा फ़रहतुल्लाह बेग
Urdu Adab Mein Tanz-o-Mizah Ki Riwayat
ख़ालिद महमूद
Charagh Tale
जापान चलो जापान चोलो
मुजतबा हुसैन
ज़रगुज़िश्त
उर्दू नस्र का इर्तिक़ा
आबिदा बेगम
Maulvi Nazeer Ahmad Ki Kahani Kuchh Unki Kuchh Meri Zabani
Bajang Aamad
कर्नल मोहम्मद ख़ान
मस्जिद से मैख़ाने तक
आमिर उस्मानी
Aao
सआदत हसन मंटो
बेदी की कहानी उसी चौंका देने वाले एहसास के साथ मुकम्मल होती है कि अस्ल रिश्ता एक ही है, ख़ल्क़ करने के process का, जिसका दूसरा रुख़ अपनाना और क़ुबूलना है। यही रिश्ता पुरुष और प्रकृति का है। ख़ुदा और ख़ुदा के रिश्ते का जो मसीही इस्तिआरा कहानी के शुरू में उभरा था, इख़्तिताम तक पहुँचते-पहुँचते अपने फैलाव और अटकाव के साथ पूरी तरह सामने आ जाता है, क्यों...
صحافت او رادب دونوں کی دنیاالگ ہے اور دونوں کامیدان بھی جداہے۔اس کے باوجودیہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور بسااوقات دونوں میں دوریاں برقراررہتی ہیں۔اس لئے ان دونوں کے رشتوں پر دونہج سے بحث کی جاسکتی ہے۔متعلقہ میدانوں سے وابستہ شخصیات کا مطالعہ اور ان کی تخلیقات یانگارشات کاتنقیدی جائزہ اس بحث کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اردو...
Nal, the son of Veerasen, was king of Nishadha kingdom. He was a scholar of the Vedas, remarkably handsome, courageous, and a charioteer extraordinary. He had but a habit of playing chausar that proved a tragic flaw of his character and tested him through a terrible phase of his life. Equally endowed in many ways was a ravishing beauty called Damya...
ساختیاتی تنقید کے مطابق کردار محض چند انوکھے خدوخال کا مظہر نہیں ہوتا جو اس کے امتیازی نشانات قرار پائیں۔ مراد یہ کہ کردار محض ایک پورٹریٹ نہیں ہے بلکہ اس میں کسی خاص سمت میں متحرک ہونے کا انداز بھی ملتا ہے تاہم وہ جیسے جیسے آگے کو بڑھتا ہے واقعات اورسانحات کی چھوٹ پڑنے سے اس کے متعین خدوخال دھندلانے لگتے ہیں مگر وہ بے شباہت نہیں ہوجاتا۔ دوسرے لفظ...
قرأت سرّی اور جہری دونوں ہوسکتی ہے۔ یہ وقت، متن اور قاری کی ذہنی ساخت پر منحصر کرتا ہے۔ کبھی بغیر معنی خیزی کے لیے پڑھ کر متن سے محض لطف اندوز ہونا ہے تو جہری قرأت ہوسکتی ہے۔ کبھی کوئی متن ایک سے زیادہ مرتبہ قرأت کا متقاضی ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھی بغور اور سرّی قرأت سے معانی تک رسائی ہوپاتی ہے۔ زیادہ تر قرأت ایک خاموش اور یکسوئی کا عمل ہے۔ بھیڑبھا...
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے بیشتر جدید ادیب نہ جی رہے ہیں، نہ ادب لکھ رہے ہیں بلکہ تنبولا کھیل رہے ہیں۔ تنبولابناکسیRiskکے بڑے نفع بخش Light refreshment اور Entertainment ہے اور جدید اردو ادب کے Creative processکا مکمل اظہار ہے۔ ایک بھونپو بجے چلا جا رہا ہے اور دھڑادھڑ جدید افسانے نکلتے آ رہے ہیں۔ انقلابی عمل سے سجے ہوئے الفاظ عمل کے بغیر اندرسے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ جن کا نہ توسماجی مسائل کے اقتصادی پہلوؤں سے کوئی تعلق ہے اور نہ عصری تاریخ کے تیز و تند عوامی بہاؤسے۔ یہ بھونپو کیا ہے ؟ یہ وہی بھونپو ہے جو انقلابی عمل سے سجے ہوئے الفاظ کو اشتہار بازی کے لیے استعمال کرتا ہے، جو ادب میں چھپ کر نئی نسل کو ورغلاتا ہے، جو ادب کے غیر ادبی معیار کا نعرہ لگاکرسماج کیContradictions سے ہماری نظریں ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، جو زندگی اور ادب کو مختلف خانے سمجھتا ہے اور اس کا پرچار کرتا ہے اور یوں عمل اور تخلیق کو الگ کرنے کی سازش میں شریک ہے۔ کیا ایسی کسی تحریک یا رجحان سے انورسجاد سے افسانہ نگار کو کوئی سمبندھ ہو سکتا ہے۔
दस्तावेज़ी प्रॉसेस मुकम्मल हुआकाहिनों ग़ैब-दानों की फ़ित्नागरी के ज़माने फ़ना हो गए
Prophet Yunus, also known as Jonah in Biblical narrative, is mentioned in three surahs (10, 21 and 37) of the Quran. God sent him to a place called Nineveh to preach among the people who led unscrupulous lives, did not believe in one God and worshipped only idols. When Yunus started his preaching there, he faced stiff opposition from the natives. U...
فوکو کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ انسان کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اپنی کتاب’’ پاگل پن اور تہذیب ‘‘ میں فوکو نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ پاگل پن کے سلسلے میں یورپ میں تصورات کس طرح بدلتے رہے ہیں۔ فوکو نے اس سلسلے میں جدید میڈیکل سائنس میں بھی جو عہد بہ عہد تبدیلیاں آتی رہی ہیں ان کا بھی جائزہ لیا ہے۔ مختلف علوم مثلاً حیاتیات، لسانیات اور معاشیات کے بنیادی تصورات کا بھی پتہ چلایا ہے۔ اس طرح فوکو کا شمار فرانس کی چار بڑی شخصیتوں میں ہونے لگا۔ ان چار عظیم شخصیتوں میں لیوی اسٹر اس، رولاں بارت اور لاکاں کے نام شامل ہیں لیکن فوکو اپنے آپ کو ساختیات کا ماننے والا تسلیم نہیں کرتا۔ فوکو کی سوچ نطشے کی سوچ سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ فوکو کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ انسان کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اگر ہم فوکو کی زندگی پر توجہ کریں تو پتہ چلتا ہے۱۹۶۰ء میں Ferrand Clermont کی یونیورسٹی میں وہ فلسفے کے شعبے کا صدر بنایا گیا تھا ’’ پاگل پن‘‘ پر اپنی تحقیقات کے سلسلے میں وہ پہلے ہی ڈاکٹریٹ حاصل کر چکا تھا۔۱۹۷۰ء میں وہ کالج ڈی فرانس میں تاریخ نظام ہائے فکر کا چیئر مین بنا دیا گیا۔ یورپ کے جدید کلچر کے سلسلے میں جو بنیادی محرکات سہاروں کی حیثیت رکھتے ہیں فوکو کی توجہ کا مرکز یہی محرکات تھے۔ فوکوان محرکات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی تحقیقات اپنی سب سے مشہور کتاب " پاگل پن اورتہذیب" لکھنے کے بعد بھی جاری رہیں، اس کی ساری کتابوں میں دی آرڈر آف تھنگز The Order of Things کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور اس کی تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ موت تک جاری رہا۔ اس کی کتاب’’ جنسیت کی تاریخ ‘‘ اس کی موت کے بعد شائع ہوئی۔ فوکو کے عہد میں نوم چومسکی Noam Chomsky ہیبر ماس Habermas اور ژاک دریدا بہت مشہور تھے، ان چاروں کی عمروں میں بس ایک آدھ سال ہی کا فرق تھا، ہیبر ماس۱۹۲۹ء میں پیدا ہوا تھا اور ژاک دریدا۱۹۳۰ء میں۔ فوکو ساختیات سے اپنے تعلق کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا، وہ ہمیشہ اپنے آپ کو جدید عہد کا مورخ سمجھتا تھا۔ فوکو نے اپنے زمانے کے پاگل خانوں اور قید خانوں کے بارے میں اپنی کتابوں میں بہت اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ قبل تاریخ کے سلسلے میں بھی اسے چند اہم ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے اس نے جدید عہد کا تجزیہ اس قدر علمی انہماک اور خوبصورتی سے کیا ہے کہ اسے جدید تہذیب کا ایک حیرت ناک نقاد سمجھا جاتا ہے۔ جدید تہذیب کی خیرہ کر دینے والی تنقید اسی کی وجہ سے ظہور میں آئی۔ وہ دو اہم باتیں جاننا چاہتا تھا ایک یہ کہ یورپ کے معاشرے میں تاریخی طور پر عقل کا نشوو نما کس طرح ہوا جدید کلچر کی بنیاد تعقل Rationality پر کس طرح قائم ہوئی اور یہ کہ جدید کلچر میں Rationality کی تاریخی بنیاد کیا ہے۔ یورپ کے معاشرے میں بالغ اور آزاد عقل کا ظہور سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی اداروں کی شکل میں کس طرح ہوا؟ ایمانول کانٹ کا یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ روشن خیالی کا مطلب کیا ہے؟ اس سوال کا ذکر فوکو نے کئی جگہ کیا ہے کانٹ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ سائنس کی تاریخ کیا ہے؟ جرمنی میں یہی سوال میکس ویبر Weber Max اور ہیبر ماس Habermas نے اٹھایا تھا سوال یہ ہے کہ سماجی عقل یا Rationality سے کیا مراد ہے؟ سماجی عقل کا ظہور ایک تو سائنس کی تاریخ کی صورت میں ہوتا ہے دوسرے سماجی عقل کا ظہور معاشرتی اداروں کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ مثل فوکو یہ سمجھتا تھا کہ عقل ہی علم کا ماخذ ہے۔ فوکو نے جس زمانے میں اپنی کتاب ’’پاگل پن اور تہذیب‘‘ لکھی تھی اس زمانے میں یورپ میں پرائیویٹ پاگل خانے اور پاگلوں کی سرکاری پناہ گاہیں Mental Asylums بہت خراب حالات میں تھیں لیکن Pinel اور Tuke کی کوششوں سے یہ پاگل خانے جدید ذہنی اسپتالوں کی صورت میں بدل گئے۔ فوکو کے کام کا آغاز پاگل پن اور تہذیب کے مسائل سے ہوا اور اس کا اختتام جنسیات کی تاریخ پر۔ فوکو کی تحقیقات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تجزیاتی تحلیل پر نئے سرے سے غور و فکر کے رجحان کو تقویت ملی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمرانیات پر فوکو کا اتنا اثر آج نہیں ہے جتنا اثر مارکس، فرائڈ اور مارکیوز Marcuse کا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فوکو کے موضوعات اور اس کا طریقہ فکر عمرانیات کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ فوکو کا انتقال۱۹۸۴ء میں۵۸ برس کی عمر میں ہوا۔ تاریخ اور فلسفے میں اس کی فکر بڑی Originality رکھتی ہے۔ اس کے کام کی نوعیت میکس ویبرکے کام سے ملتی جلتی ہے۔ میکس ویبر Max Weber کا کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس کی تحقیقات مغربی تہذیب کی اس خصوصیت سے تعلق رکھتی ہے کہ یورپ میں سماجی ارتقاء کے سلسلے میں بنیادی دھارا اگر تعقل کے عمل کا ہے تو اس کی خاص نوعیت کیا ہے۔ میکس و یبر کا خیال تھا کہ سرمایہ داری کے زمانے میں قانون،آرٹ،مذہب اور موسیقی کے ارتقا میں اصل اہمیت ایک عام Rationalizing Process کی ہے جو سماج میں جاری رہتا ہے اور اسی تعقل کے عمل سے اس کے خیال میں یورپ میں مختلف سماجی ہیتوں اور کلچر میں اسٹرکچر پیدا ہوئے ہیں۔ میکس و یبر کی رائے میں مختلف قسم کی تعقل پسندی جدید سوسائٹی کے مرکزی حلقوں میں پیدا ہوئی اور اسی سے یورپ کا مخصوص کلچر پیدا ہوا ہے۔ فوکو میکس ویبر سے مختلف بنیادوں پر اپنی فکر کو استوار کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فوکو میں Rationalizing کے عمل کی کوئی ایسی صورت ہے جو تہذیب کے تمام شعبوں پر محیط ہو، کچھ ایسے مقامات ضرور ہیں جہاں تعقل کا یہ عمل بہت نمایاں ہے۔ تو بات یہ ہے فوکو کے مقاصد کی نوعیت میکس و یبر سے مختلف تھی۔ ان معنوں میں کہ فوکو کے یہاں فکر کی تنظیم کا بڑاگہرا تعلق اقدار اور علم کے باہمی تعلق سے ہے۔ میکس ویبر کے یہاں معاشرے میں ایک مخصوص تقدیر کار فرما رہتی ہے یعنی تعقل ایک آہنی قید خانے کی صورت میں موجود رہتا ہے لیکن فوکو کا خیال ہے کہ عقلیت جو اقتدار کی ٹیکنالوجی سے پیدا ہوتی ہے اس سے مزاحمت کا امکان بھی رہتا ہے۔ چنانچہ فوکو کے خیال میں مختلف بیماریاں، جرائم اور ان کی سزائیں اور جنسیت کے مسائل اسی عقلیت کی عمرانی تاریخ کے ابواب ہیں۔ فوکو کی دلچسپی ہمیشہ اس مسئلے میں رہی ہے کہ معاشرے میں عقلیت کس طرح ظہور کرتی ہے اور کس طرح نشوونما پاتی ہے پھر کس طرح اسی عقلیت سے علم کے مختلف شعبے معاشرے میں ظہور کرتے ہیں۔ فوکو کی کتابیں اس لیے مشکل نہیں ہیں کہ ان کی زبان بَل کھائی ہوئی ہے اور اس کے تصورات عام تفہیم سے بھاگ نکلتے ہیں بلکہ یہ کتابیں اس لیے مشکل ہیں کہ ان کا اسٹرکچرAnti-Disciplinary ہے۔ فوکو کے یہاں عمرانی بصیرتوں کی کمی نہیں ہے، لیکن مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ اس کے خیالات روایتی ڈسپلن کے مطابق نہیں ہوتے۔ فوکو کی دلچسپی اس بات میں زیادہ ہے کہ Relations Power کے یہ سسٹم کس طرح تشکیل پاتے ہیں۔ فوکو کے خیالات میں ماہرین عمرانیات کے لیے خاصی دلچسپ چیزیں ہیں لیکن ان خیالات سے کوئی مجموعی فلسفہ ترتیب دیناآسان کام نہیں ہے۔ مارکس، فرائڈ اور نطشے نے فوکو کی فکر پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں لیکن فوکو بہت زیادہ ان مفکروں کے حوالے دینا پسند نہیں کرتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان تینوں مفکروں کے یہاں علم اور اقتدار کا باہمی تعلق بہت نمایاں ہے، مارکس کے یہاں خیال کی قوت معاشی حوالوں کے ذریعے نظر آتی ہے۔ فرائڈ کے یہاں خواہش اور علم کے درمیان یہ تعلق نظر آتا ہے اور نطشے معاشرے کی مختلف ہئیتوں میں اقتدار کی خواہش کو جلوہ گر دیکھتا ہے۔ ان میں سے ہر تعلق دراصل زندگی کی ایک تعبیر ہے اور ہر تعبیر مظہر کی تہہ میں اقتدار اور مفادات کی جنگ کوچھپائے رکھتی ہے۔ یہ جنگ عام انسانوں کی نفسیات سے لے کر انفرادی نفسیات تک ہر جگہ کشمکش کی صورت میں جاری رہتی ہے۔ فوکو کے مطابق ان تینوں مفکروں کے یہاں زندگی کی یہ تعبیریں مختلف انداز میں ملتی ہیں مثلاً مارکس کے یہاں پیداوار کا بورژوا تصور ملتا ہے۔ فرائڈ کے یہاں مریض کے بیان کیے ہوئے خوابوں کی تعبیر ملتی ہے اور نطشے کے یہاں الفاظ کے معانی کی تعبیر۔ ہر چند کہ فوکو یہ کہتا ہے کہ آج کی تاریخ ان تصورات کے بغیر نہیں لکھی جا سکتی جن کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ طور پر مارکس کے خیالات سے ہے اس کے باوجود فوکو کے خیالات کے ارتقاء میں نطشے کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوکو کے نظریات کو اس کے عہد کے تصورات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے یعنی فوکو سے واقف ہونے کے لیے جہاں اشتراکیت اور ساختیات سے واقف ہونا ضروری ہے وہیں مظہریات Phenomenology اور تشریحیات Hermeneutics سے واقف ہونابھی ضروری ہے۔ ساختیات کی آمد سے مظہریات رخصت ہو گئی اور فکر میں کچھ ایسی تبدیلی آئی کہ التھیو سے Althusser کی اہمیت بڑھ گئی اور مارکسزم کی دوبارہ تشکیل اس طرح کی جانے لگی کہ Stalinism اور دہشت گردی سے نجات مل جائے۔ فوکو کا کام مظہریات سے اس طرح مختلف ہے کہ مظہریات کے مطابق خود مختار داخلیت کو معانی کی تخلیق کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا یعنی فوکو معانی کی تخلیق کا ذمہ دار داخلیت کو نہیں سمجھتا (جیسا کہ مظہریات کے ماننے والوں کاخیال ہے) فوکو کے کام کو ہائیڈ یگر کی فکر سے بھی الگ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ فوکو کے یہاں کوئی آخری سچائی ایسی نہیں ہے جو دریافت کرنے والے کے انتظارمیں ہو۔ مظہریات کے مطابق معانی انسان کی داخلیت سے پیدا ہوتے ہیں چنانچہ مظہریاتی فکر انسانی داخلیت ہی کو معانی کا محور سمجھتی ہے۔ معانی کا آغاز داخلیت میں تو ہوتا ہے لیکن اس معانی کا تعلق سماجی، تاریخی اور کلچرل پس منظر سے ہوتا ہے۔ اس طرح پتہ چلتا ہے کہ فوکو کے کام کا تعلق مظہریات سے بھی نہیں ہے کیوں کہ فوکو کے خیال میں معانی خود مختار داخلیت سے پیدا نہیں ہوتے اور نہ ان کا تعلق تشریحیات Hermeneutics سے ہے کیوں کہ Hermeneutics میں کوئی گہری اور آخری سچائی دریافت کرنے والے کے انتظار میں ہوتی ہے۔ اسی طرح فوکو کا کام اشتراکیت سے بھی مختلف ہے کیوں کہ فوکو کے تجزیوں کا انحصار مقامی اور مخصوص واقعات پر ہوتا ہے۔ عالمی صورتِ حال اور عالمی Process پر نہیں ہوتا۔ فوکو کے یہاں حالات کو متعین کرنے والا صرف ایک (Factor) نہیں ہوتا یعنی صرف معاشیات ہی حالات کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ مختلف نوعیت کے کئی واقعات مل جل کر ایک بدلی ہوئی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ فوکو کا تصور تاریخ مارکس کے تصورِ تاریخ سے بالکل مختلف ہے۔ فوکو کے تصور تاریخ کا ماخذ نطشے کا تصور تاریخ ہے۔
آرٹ تاریخ اور کروچے فلسفۂ تاریخ کو یونیورسٹیوں میں باعزت مقام دیا جاتا ہے ہماری یونیورسٹیوں میں نہیں یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں، لیکن کبھی اس کی حیثیت مہمان ِخصوصی کی بھی ہو جاتی ہے اور کبھی اسے یونیورسٹیوں سے نکال بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن بقول کروچے یہ پچھلے دروازے سے واپس آجاتی ہے تاریخ کے خلاف پہلا فیصلہ تو خود ارسطو نے کیا تھا کہ اس کے خیال میں تاریخ سے زیادہ فلسفیانہ شاعری ہوتی ہے۔ آج کل تو ایسی شاعری بھی لکھی جارہی ہے جس سے زیادہ شاعرانہ خود تاریخ ہے کبھی شاعری نے ہر چیز کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا یہاں تک کہ تاریخ کو بھی۔ یہ سلسلہ تاریخ سے نکل کر اساطیر تک پہنچ جاتا ہے یوسف زلیخا، ایوب کا صبر، طوفان نوح، قصہ آدم اور باغ ارم ان سے زیادہ شاعرانہ اور کیا چیز ہو سکتی ہے کیوں کہ ان سب چیزوں کو شاعری نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے یہی تاریخ، قبل تاریخ اور اساطیر کلاسیکی شاعری ہی کا نہیں جدید شاعری کا بھی ماخذہیں۔ تاریخ کے مقابلے میں شاعری کو ارسطو اس لئے زیادہ فلسفیانہ قرار دیتا ہے کہ تاریخ مخصوصیت یعنی (Particularity) سے اپنا تعلق قائم رکھتی ہے اور شاعری آفاقیت سے تو ارسطو کی اس رائے کے بعد فلسفہ تاریخ کا یہ فرض ہو گیا کہ ایسی عمومیت (Generalisation) یا نمونے (Patterns) تلاش کرے جو بار بار رونما ہوتے ہیں۔ صرف حادثاتی امور تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھے۔ امپی ڈوکلیس (Empedocles) اسپنگلر اور سوروکن اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ تاریخ دائروں میں گھومتی ہے یہ دائرے ہمارے سامنے بار بار آتے ہیں لیکن کسی خاص سمت میں آگے نہیں بڑھتے جو لوگ تاریخ کی رفتار کو بامقصد سمجھتے ہیں جیسے کارل مارکس ان کا یہ خیال ہے کہ تاریخ ایک خاص سمت میں آگے بڑھ رہی ہے سینٹ اگسٹائن یہ سمجھتا تھا کہ تاریخ ماورائیت رکھتی ہے مذہبی مفکر کا ایسا سمجھنا ضروری بھی تھا لیکن کارل مارکس سمجھتا تھا کہ تاریخ کوئی ماورائیت نہیں رکھتی ہے اور نہ کسی ماورائی قوت کی بنیاد پر تاریخ حرکت کرتی ہے بلکہ تاریخ انسانی اداروں اور انسانی کلچر کے نشوونما میں ظہور کرتی ہے لیکن ہابس، کانٹ اور کروچے کا خیال ہے تاریخ آزادی کا ترقی پسندانہ(Realization) ہے۔ ہر ڈر نے کہا کہ تاریخ روح کا آلہ کار ہے روح یعنی اسپرٹ کا اس بات کو ہیگل نے آگے بڑھایا۔ ہیگل معاشرہ میں روح (Geist) کا عقلی ارتقاء تلاش کرتا ہے۔ جرمن زبان میں Geist کے معنی ہوتے ہیں Spectre, Ghost, Spirit, Wit, Intellect , Mind ملاحظہ کیجیے۔ Wichmann کی جرمن انگلش ڈکشنری میں ان لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمن زبان کے اس لفظ کا ترجمہ صرف "روح" کے لفظ سے نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ روح Soul کا ترجمہ ہے ہیگل کی (Geist) کا مطلب ہے اسپرٹ یا انٹلکٹ یا خیال۔ تاریخی مادیت اجتماعیت اور سوشلزم ہیگل کے اسی تصور سے پیدا ہوئے ہیں کروچے ہیگل کی فکری روایت کو مانتا ہے اس کے ہاں آزادی ہی انسانیت کا اخلاقی آئیڈیل ہے آزادی ہی ابدی خالق ہے اور تاریخ کی وضاحت کرنے والا بنیادی اصول کرو چے ہیگل کی محدود عقلیت پرستی سے نکل کر لاشعور، فطرت، آرٹ اور وجدان کی دنیا میں آجاتا ہے۔ کروچے تاریخی واقعات اور ان کے علم کو الگ الگ نہیں سمجھتا کروچے ہیگل اور سینٹ ٹامس اکیناس کی طرح یہ سمجھتا ہے کہ مطلق دنیا کے (Process) میں عمل پیرا بھی ہوتا ہے اور مطلق ہی اس پر غور و فکر بھی کرتا ہے۔ تاریخ پر رد عمل کے ساتھ ساتھ کروچے کا نام جمالیات کے ساتھ وابستہ ہے۔ جمالیات کے سلسلے میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے وجدان اور اظہار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ وہ مارکس سے اس قدر ضرور متاثر ہوا کہ نیکی، خوبصورتی اور سچائی کے ساتھ افادیت کو بھی ایک قدر تسلیم کرنے لگا ویسے وہ (Geist) یعنی اسپرٹ کو اصل حقیقت مانتا تھا یعنی وہ Intellect اور Mind کی اہمیت کا قائل تھا مادہ کا نہیں کرو چے سمجھتا ہے کہ کائنات میں جو صورتیں رونما ہوئی ہیں وہ (Spirit) کے اظہار ذات سے پیدا ہوئی ہیں۔ انسان کی روح بھی ایک وحدت ہے چنانچہ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں ہماری عقل، ہمارے جذبات، ہمارا لاشعور، ہمارے احساسات سب شامل ہوتے ہیں ہم جو آرٹ تخلیق کرتے ہیں اس میں ہماری روح اپنی پوری وحدت میں ظاہر ہوتی ہے، تاریخ کے ہر لمحہ میں روح بھر پور طور سے موجود ہوتی ہے ہمارا آرٹ اور ہماری زندگی دونوں روح کا مظہر ہیں۔ آرٹ اسی وقت تخلیق ہوتا ہے جب فنکار کے وجدان میں روح اپنے آپ کو معرض وجود میں لاتی ہے آرٹ فنکار کے وجدان میں تخلیق ہوتا ہے۔ آرٹ کیا ہے؟ ایک لیریکل امیج یہی لیریکل امیج آرٹ میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے شاعری سے لے کر عمارت سازی تک ہر آرٹ کی جان یہی لیریکل امیج ہے جو نقاد اس حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ آرٹ میں فکر، نکتہ سنجی یا فنی اظہار پر زور دینے لگتے ہیں، مجسمہ سازی، شاعری، موسیقی، مصوری سب ایک ہیں۔ کروچے کا خیال ہے کہ رزمیہ، ڈرامائی اور لیریکل، شاعری کی تقسیم اس لئے ہے کہ آرٹ معروضیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ تین منزلیں آتی ہیں پہلی منزل غنائی شاعری ہے ،غزل، گیت، دو ہے وغیرہ ان میں ذات یا انا اپنی تصویر کھینچتی ہے اپنے آپ کو پیش کرتی ہے میر کا یہ شعر دیکھئے۔ ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا غنائی شاعری شاعر کا عاشقانہ روپ اور اس کی تصویر پیش کرتی ہے، اس کا تعلق ایک طرف بصری حسن سے ہوتا ہے اور دوسری طرف سماعی حسن سے یعنی موسیقیت سے۔ اب ایپک شاعری کی طرف آئیے۔ ایپک شاعری میں شاعر اپنے آپ کو چھپا کر دنیا کو پیش کرتا ہے۔ ڈرامائی شاعری میں شاعر کی فیلنگ اپنے اظہار کے لیے کردار تخلیق کرتی ہے اور ان کے تصادم میں اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔ شاعر کی ذات معروضیت کے یہی تین طریقے ہیں جو اختیار کرتی ہے، پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ شاعر اپنی ذات کا ڈراما خود پیش کرے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خود چھپ جائے اور دنیا کو پیش کرے تیسرا طریقہ یہ ہے کہ شاعر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کردار تخلیق کرے یہ تین طریقے غنائی رزمیہ اور ڈرامائی شاعری کہلاتے ہیں۔ غنائی شاعری صرف گیت اور غزلوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ رزمیہ اور ڈرامائی شاعری میں بھی ظاہر ہوتی ہے مثلاً میکبتھ اور انطونی اور کلو پیٹرا میں معقول حد تک غنائی شاعری بھی موجود ہے۔ ہیملٹ زندگی سے بیزاری اور مایوسی کے موڈ کا اظہار ہے، کردار، سچویشن اور انجام سب اسی موڈ کا اظہار ہیں، ہیملٹ کے مختلف مناظر اور مختلف کرداروں میں ایسی مایوسی کی مختلف تدریجی کیفیتوں اور لہجوں کا اظہار ہے، او تھیلو کا کردار بھی صرف تخیل نہیں بلکہ سچائی کا فنکارانہ اظہار ہے۔ اس سے کروچے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی کے حصول کا ذریعہ صرف عقل نہیں ہے۔ وجدان بھی ہے آرٹ کی تخلیق وجدان سے ہوتی ہے۔ عقل سے نہیں۔ آرٹ کا جو ہر قوت متخیلہ ہے جوا سے تاریخ اور عقل سے الگ کر دیتا ہے۔ متخیلہ سے مراد وہ جوہر ہے جو صرف خیال یا تصور میں موجود ہوتا ہے۔ فنکار جب اپنے خیال یا تصور سے نکل کر غور و فکر اور ان کے نتائج کی دنیا میں آجاتا ہے تو آرٹ ختم ہو جاتا ہے۔ وجدان چیزوں کو ان کی کلیت میں دیکھنے کا نام ہے برگساں نے وجدان کا تصور بڑی شدومد سے پیش کیا ہے وہ سمجھتا ہے کہ وجدان اشیاء کی اصل حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور تعقل صرف عملی دنیا میں راہنمائی کرتا ہے لیکن کروچے وجدان کو جمالیاتی سچائی تک پہنچنے کا ذریعہ بتاتا ہے۔ وجدان کو جو چیز ہم آہنگی عطا کرتی ہے وہ احساس کی شدت ہے اور احساس کی یہی شدت آرٹ کی علامتوں کو ہلکا بھی کر دیتی ہے۔ کروچے کہتا ہے کہ فنکارانہ وجدان ہمیشہ لیریکل ہوتا ہے وجدان کے ساتھ غنائی کہنا ایک زائد لفظ کا استعمال ہے کیوں کہ وجدان ہوتا ہی غنائی ہے۔ آرٹ کے جھوٹے نمونے وہ ہوتے ہیں جن میں ذہن کی مختلف حالتوں کے درمیان کشاکش رہتی ہے جو حل نہیں ہونے پاتی۔ کروچے کہتا ہے کہ شاعر جب اپنے وجدان کا اظہار لفظوں میں اپنے ذہن میں کرتا ہے تو نظم اسی وقت مکمل ہو جاتی ہے لیکن جب شاعر یہ نظم سپرد قلم کرتا ہے یا دوسروں کو سنانا چاہتا ہے یا اشاعت کی غرض سے بھیجتا ہے تو اس بات کا تعلق عملی دنیا سے ہوتا ہے جمالیات کی دنیا سے نہیں۔ اگر مصور کے برش کا اسٹروک اس کے وجدان کے مطابق نہ ہو تو مصور اس اسٹروک کو فوراً منسوخ کر دیتا ہے اور پھر درست کرتاہے۔ تکنیک کا تعلق ابلاغ سے ہے، تکنیک آرٹ کا بنیادی عنصر نہیں ہے جو فنکار اپنے آرٹ میں کوئی کمی محسوس کرتا ہے وہی تکنیک پر زور دیتا ہے۔حساس قاری شعر کے ایک ہی مصرعہ میں ان گنت کیفیتیں محسوس کرتا ہے، شاعری کے ایک مصرعہ میں ایک حساس قاری کو ایک پینٹنگ مل سکتی ہے، ایک مجسمہ کی بھرپور کیفیت مل سکتی ہے، ایک عمارت کا پورا اسٹرکچر مل سکتا ہے۔ دیکھنے والے کی روح میں تصویر صرف رنگ کے طور پر نہیں بلکہ آواز کی حیثیت سے بھی زندہ ہوتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم مصوری یا موسیقی کی کیفیات کو گرفت میں نہیں لے سکتے یہ خصوصیات ہماری گرفت سے باہر نکل جاتی ہیں یا ایک خصوصیت دوسری خصوصیت میں ڈھل جاتی ہے یا مختلف خصوصیتیں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ آرٹ دراصل ایک ہوتا ہے اسے مختلف فنون میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود آرٹ لامحدود طور پر متنوع ہوتا ہے، مختلف فنون کے تصورات کے طور پر نہیں بلکہ فنکارانہ شخصیتوں اور ان کی ذہنی کیفیتوں کے لامحدود تنوع کے طور پر کروچے کی رائے میں شاعری کی بنیاد شخصیت پر ہوتی ہے اور شخصیت کی تکمیل اخلاقیات سے ہوتی ہے یعنی شاعری کی بنیاد اخلاقی شعور سے گہرا تعلق رکھتی ہے لیکن صرف اخلاقی شعور کسی کو شاعر بنانے کے لیے کافی نہیں ہے شاعری کے لیے شاعرانہ جینیئس ضروری . ہے۔ باقی سب چیزیں ایندھن کا کام کرتی ہیں۔ کروچے کے خیالات کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ’’شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، کوئی پیغام نہیں ہوتا ، شاعری ایسی کرن کی طرح ہوتی ہے جو اپنی روشنی کا باعث خود ہوتی ہے اور تاریکی میں چھپی ہوئی چیزوں کو روشن کر دیتی ہے ہر شخص کے دل میں خواہ وہ مفکر ہو، سیاست داں ہو یا نقاد تخیل کا پرائیویٹ ذخیرہ ہوتا ہے سیاسی شاعری، شاعری نہیں ہوتی۔ شاعری کا تعلق تخیل کی دنیا سے ہوتا ہے لیکن خالص شاعری کا تصور مضحکہ خیز ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ سمجھتا ہو کہ پھول زمین اور پودے کے بغیر اگ سکتا ہے۔‘‘ واقعات کی دنیا اور ہوتی ہے خواہشات کی دنیا اور شاعری خواہشات کی دنیا کو پیش کرتی ہے آرٹ کا تعلق حقیقی شاعرانہ تخیل سے ہوتا ہے صرف خیال آفرینی یا خیالی اڑان سے نہیں ہوتا۔ آرٹ اپنے امیج میں اس طرح رہتا ہے جیسے بادشاہ اپنی مملکت میں شاعری غیر معقول نہیں ہوتی اور نہ منطق سے لا پرواہی برت سکتی ہے اس کی اپنی معقولیت اور اپنی ایک منطق ہوتی ہے۔ آرٹ کی بنیاد وجدان اور فلسفہ کی بنیاد عقل ہے۔ اچھا قاری آرٹ کی روح کے اندر اتر جاتا ہے۔ آرٹ کے دل کی دھڑکن سنتا ہے اور اگر یہ دھڑکن سنائی نہ دے تو وہ اس شاعری کو رد کر دیتا ہے۔ انسانی روح صرف علم سے مطمئن نہیں ہوتی بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قدم رکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے ہم تاریخ میں حصہ لیتے ہیں۔ خطابت شاعری کی آفاقیت کو ختم کر دیتی ہے۔ مقبول شاعری اور عظیم شاعری میں فرق ہے مقبول شاعری ان جذبات کا اظہار ہے جو عام فکر اور جذبات کی رو کے مطابق ہوتی ہے عظیم شاعری فلسفہ حیات کے بغیر نہیں ہو سکتی عظیم شاعری ہمارے اندر عظیم یادوں اور عظیم خیالات کو بیدار کرتی ہے۔ شاعری وہ سنہرا تیر ہے جو آسمان کی طرف چلایا جاتا ہے یعنی آرٹ کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ لیکن کروچے یہ تسلیم کرتا ہے کہ آرٹ فنکار کی شخصیت کا اظہار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آرٹ پورے معاشرے کی شخصیت کا اظہار یعنی پوری انسانیت کا اظہار ہے۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books