aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "خلاصہ"
مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوںراز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا
’’سمجھ گیا’’میں نے چڑ کر کہا۔ ہمارے قصبہ میں ہائی سکول ضرور تھا لیکن میٹرک کا امتحان کا سنٹر نہ تھا۔ امتحان دینے کے لیے ہمیں ضلع جانا ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ صبح آ گئی جس دن ہماری جماعت امتحان دینے کے لئے ضلع جا رہی تھی اور لاری کے ارد گرد والدین قسم کے لوگوں کا ہجوم تھا اور اس ہجوم میں داؤ جی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے اور سب لڑکوں کے گھر والے انہیں خیر و برکت کی دعاؤ ں سے نواز رہے تھے اور داؤ جی سارے سال کی پڑھائی کا خلاصہ تیار کر کے جلدی جلدی سوال پوچھ رہے تھے اور میرے ساتھ ساتھ خود ہی جواب دیتے جاتے تھے۔ اکبر کی اصلاحات سے اچھل کر موسم کے تغیر و تبدل پر پہنچ جاتے وہاں سے پلٹتے تو ’’اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا کہ اپنی وضع سے ہندو معلوم ہوتا تھا۔ وہ نشہ میں چور تھا ایک صاحبِ جمال اس کا ہاتھ پکڑ کر لے آئی تھی اور جدھر چاہتی تھی پھراتی تھی‘‘ کہہ کر پوچھتے تھے یہ کون تھا؟
ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں میں طلاق ہوگئی۔
وہ ٹھیرے ایک جھکی۔ اس لیے میں نے فوراً یہ اقرار کر کے اپنا پنڈ چھڑایا کہ، ”مجھے اس کلیہ سے اتفاق ہے۔ بشرطیکہ درد شدید ہو اور کسی دوسرے کے اٹھ رہا ہو۔“ پچھلے جاڑوں کا ذکر ہے۔ میں گرم پانی کی بوتل سے سینک کر رہا تھا کہ ایک بزرگ جواسی سال کے لپیٹے میں ہیں خیر و عافیت پوچھنے آئے اور دیر تک قبر و عاقبت کی باتیں کرتے رہے جو میرے تیمار داروں کو ذرا قبل از وقت معلوم ہوئیں۔ آتے ہی بہت سی دعائیں دیں، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا مجھے ہزاری عمر دے تاکہ اپنے اور ان کے فرضی دشمنوں کی چھاتی پر روایتی مونگ دلنے کے لئے زندہ رہوں۔ اس کے بعد جانکنی اور فشارگور کا اس قدر مفصل حال بیان کیا کہ مجھے غریب خانے پر گور غریباں کا گمان ہونے لگا۔ عیادت میں عبادت کا ثواب لوٹ چکے تو میری جلتی ہوئی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھاجس میں شفقت کم اور رعشہ زیادہ تھا اور اپنے بڑے بھائی کو (جن کا انتقال تین ماہ قبل اسی مرض میں ہوا تھا جس میں میں مبتلا تھا) یاد کر کے کچھ اس طرح آب دیدہ ہوئے کہ میری بھی ہچکی بندھ گئی۔
الماس و عقیق و لعل و یاقوتتھی بس کہ وہ جا خلاصہ دہر
بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ دنیا کے لئے اور بالخصوص بر صغیر کے لئے خاصہ ہنگامہ خیز تھا۔ نئی صدی کی دستک نے نئے افکار و خیالات کے لئے ایک زرخیز زمین تیّار کی اور مغرب کے توسیع پسندانہ عزائم پر قدغن لگانے کا کام کیا۔ اس پس منظر نے اردو شاعری کے موضوعات اور اظہار کےمحاورے یکسر بدل کر رکھ دئے اور اس تبدیلی کی بہترین مثال علامہ اقبالؔ کی شاعری ہے۔ اقبالؔ کی شاعری نے اس زمانے میں نئے افکار اور روشن خیالات کا ایک ایسا حسین مرقع تیار کیا جس میں شاعری کے جملہ لوازمات نے اسلامی کرداروں اور تلمیحات کے ساتھ مل کر ایک جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ لوگوں کو بیدار کرنے اور ان کے اندر ولولہ پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اقبالؔ کی شاعری نے عالمی ادب کے جیّدوں سے خراج حاصل کیا اور ساتھ ہی ساتھ تنازعات کا محور بھی بنی رہی۔ اقبال بلا شبہ اپنے عہد کے ایسے شاعر تھے جنہیں تکریم و تعظیم حاصل ہوئی اور ان کے بارے میں آج بھی مستقل لکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے بچوں کے لئے جو شاعری کی ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ان کی کئی نظموں کے مصرعے اپنی سادگی اور شکوہ کے سبب آج بھی زبان زد عام ہیں۔ مثلاً سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا یا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کا آج بھی کوئی بدل نہیں۔ یہاں ہم اقبالؔ کے مقبول ترین اشعار میں سے صرف ۲۰ اشعار آپ کی نذر کر رہے ہیں۔ آپ اپنی ترجیحات سے ہمیں آگاہ کر سکتے ہیں تاکہ اس انتخاب کو مزید جامع شکل دی جا سکے۔ ہمیں آپ کے بیش قیمت تاثرات کا انتظار رہے گا۔
ख़ुलासाخلاصہ
summary, explanation
सार, संक्षेप, निचोड़, परिणाम, नतीजा, सारांश, तल्खीस।
کلیات نفیسی
ابو علی سینا
طب
خلاصۂ تعلیم تصوف
خواجہ حسن نظامی
فلسفہ تصوف
خلاصہ یادگار غالب
الطاف حسین حالی
سوانح حیات
اردو خلاصہ شرح نخبۃ الفکر
محمد فضل کریم
حق درلاثانی
مجدد الف ثانی
خطوط
خلاصۂ نظام ربوبیت
غلام احمد پرویز
اسلامیات
خلاصہ تورات
خلاصۂ تاریخ
حامد حسن قادری
زبان و ادب
خلاصہ طبقات الارض ہند
مخزن معارف
معین الدین
خلاصہ مجموعۂ ضابطہ فوجداری سرکار عالی
سید واجد حسین
قانون / آئین
اسلام کی اخلاقی تعلیمات
امام محمد غزالی
اخلاقیات
قصص الانبیاء
نامعلوم مصنف
داستان
خلاصہ رامائن
پنڈت چندر چوڑ
رزمیہ
خلاصۂ سیرت نبوی
یہ ایک نہایت ضرورت بحث ہے۔ ا س لئے ہم اس کو تفصیل سے لکھتے ہیں۔ کتاب العمدہ میں باب اللفظ و المعنی ایک خاص عنوان قائم کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے، ’’لفظ جسم ہے اور مضمون روح ہے۔ دونوں کا ارتباط باہم ایسا ہے جیسا روح اور جسم کا ارتباط کہ وہ کمزور ہوگا تو یہ بھی کمزور ہوگی،پس اگر معنی میں نقص نہ ہو اور لفظ میں ہو تو شعر میں عیب سمجھا جائے گا جس طرح لنگڑ...
بس اس قدر ہے خلاصہ مری کہانی کاکہ بن کے ٹوٹ گیا اک حباب پانی کا
میں ان دونوں خیالوں کو وسعت دے رہا تھا، اور بے فکری کے تکیے سے لگا بیٹھا تھا کہ نیند آگئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ سلطان افلاک کے دربار سے ایک اشتہار جاری ہوا ہے۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ تمام اہل عالم اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف کو لائیں اور ایک جگہ ڈھیر لگائیں چنانچہ اس مطلب کے لئے ایک میدان کہ میدان خیال سے بھی زیادہ وسیع تھا تجویز ہوا اور...
اس رائے کا خلاصہ یہ ہوسکتا ہے،(۱) اقبالؔ فاشسطینت کا ترجمان ہے۔
منشی جی کی قانون دانی میں بھی کوئی شک نہیں مگر’’پاس ‘‘کی منحوس قید نے انھیں مجبور کردیا تھا۔ بہر حال جو کچھ ہو یہ محض اعزاز کے لیے تھا ورنہ ان کی گذر ان کی خاص صورت، قرب و جوار کی بے کس مگر فارغ البال بیواؤں اور سادہ لوح مگر خوش حال بڈھوں کی خوش معاملگی تھی۔ بیوائیں اپنا روپیہ ان کی امانت میں رکھتیں، بوڑھے اپنی پونجی نا خلف لڑکوں کی دست برد سے محفو...
کیا کہیں حال زمانے کا خلاصہ یہ ہےتم ہمارے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
اگر چہ اس میں واقعیت پر ظلم اچھا خاصہ ہوگیا ہے۔ لکھنؤ غریب انتہائی اوج شباب کے زمانہ میں بھی بھلا پیرس کے مقابلہ میں کیا ٹھہر سکتا تھا، ظریفانہ کلام میں بارہا لفظ پست و مبتذل لاتے لیکن موقع محل ایسا چھانٹ کر نکالتے، بندش اس خوبی سے کرتے اور مصرعہ اس ٹھاٹھ کا رکھتے کہ پستی و ابتذال غائب، کلام میں بجائے تنافر کے لطف و شگفتگی قائم، مذاق سلیم پکار اٹھ...
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتاایک دن میں دلی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے موثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جا رہا تھا۔ دو تین منٹ کے وقفہ کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انھیں الفاظ اور اسی پیرایہ میں دہرا دی جاتی تھی۔ یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ میں اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا، جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوبصورت ہوتا، مگر بدمعاشی اور بےحیائی نے صورت مسخ کر دی تھی۔ یہ تو اس کی شکل تھی۔ رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بلفظ لکھتی جائے چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے یہ تھی۔
اگر غزل مطلع سے شروع نہ ہو تو سننے والے یا پڑھنے والے کے ذہن کی تربیت ان خطوط پر نہیں ہو سکتی ہے جو غزل کا خاصہ ہیں۔ اس لیے قدما نے غزل کے لیے مطلع کی شرط لگائی ہے، خواہ یہ کمزور ہی کیوں ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ بہت سے اساتذہ نے کئی مطلعوں کی غزل کہی ہے مگر یہ قطعی ضروری نہیں ہے کیونکہ پہلے مطلع کے بعد وہ صوتی نظام اور وہ موسیقی جو غزل کے ساتھ...
ناول نگاری کافی دنوں تک اعتبار فن سے محروم رہی لیکن بورژوا نظام کے عروج نے اس کے آرٹ کی حصار بندی کی۔ ناول اور حقیقت نگاری کے ضمن میں لکھتے ہوئے رالف فاکس نے اس طرف بھی خاصی توجہ دی ہے۔ فن ناول نگاری کو موجودہ صورت و سیرت اور ہیئت تک پہنچنے میں ارتقا کی کئی منازل سے گزرنا پڑا ہے جن سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ ناول ایک نثری صنف ادب ہے جو قصہ گوئی ک...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books