aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "مولیٰ"
قلق میرٹھی
1832/3 - 1880
شاعر
پرنم الہ آبادی
1940 - 2009
بیخود بدایونی
1857 - 1912
مولوی عبدالحق
1872 - 1961
مصنف
عبدالحلیم شرر
1860 - 1926
محسن کاکوروی
1825 - 1905
مولوی احمد رضا خان
1856 - 1921
شیدا الہ آبادی
مرلی دھر شرما طالب
born.1977
رامانند ساگر
1917 - 2005
لالہ موجی رام موجی
born.1789
درشن دیال پرواز
born.1935
مونی گوپال تپش
born.1949
مولوی عبدالرضا رضا
مرلی دھر شاد
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتییہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
پیشانی کو سجدے بھی عطا کر مرے مولیٰآنکھوں سے تو یہ قرض ادا ہو نہیں سکتا
’’ہتھ لائیاں کمھلاں نی لاجونتی دے بوٹے‘‘(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)
جانماز اور پھر مصلیٰ ہے وہیاور سجادہ بھی گویا ہے وہی
مرے ماسٹر نہ ہوتے جو علوم و فن میں داناکبھی مولیٰ بخش صاحب کا نہ میں شکار ہوتا
بوسہ پر شاعری عاشق کی بوسے کی طلب کی کیفیتوں کا بیانیہ ہے ، ساتھ ہی اس میں معشوق کے انکار کی مزے دار صورتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں ۔ یہ طلب اور انکار کا ایک جھگڑا ہے جسے شاعروں کے تخیل نے بےحد رنگین اور دلچسپ بنادیا ہے ۔ اس مضمون میں شوخی ، مزاح ، حسرت اور غصے کی ملی جلی کیفیتوں نے ایک اور ہی فضا پیدا کی ہے ۔ ہمارا یہ چھوٹا سا انتخاب پڑھئے اور ان کیفیتوں کو محسوس کیجئے۔
مقبول اردو شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ پریم روگ اور رام تیری گنگا میلی کے گیتوں کے لئے مشہور
آرزؤں اور امیدوں کے ناکام ہونے کے بعد ان کی حسرت ہی بچتی ہے ۔ حسرت دکھ ، مایوسی ،افسوس اور احساس محرومی سے ملی جلی ایک کیفیت ہے اور ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی لمحے میں اس کیفیت سے گزرتے ہیں ۔ کلاسیکی شاعری میں حسرت کی بیشتر صورتیں عشق میں ناکامی سے پیدا ہوئی ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور اس حسرت بھرے بیانیے کی اداسی کو محسوس کیجئے ۔
मौलाمولیٰ
lord, master, God
قواعد اردو
زبان
اردو صرف و نحو
فیروزاللغات اردو جامع
مولوی فیروز الدین
لغات و فرہنگ
اردو کی ابتدائی نشوو نما میں صوفیائے کرام کا کام
خواص مولی
حکیم محمد عبداللہ
طب
مولی اور معاویہ
خلیل احمد
تاریخ اسلام
اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام
تحقیق / تنقید
ایک چادر میلی سی
راجندر سنگھ بیدی
معاشرتی
مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی
مرزا فرحت اللہ بیگ
نثر
پنجابی شاعراں دا تذکرہ
میاں مولا بخش کشتہ
تصوف
مرحوم دہلی کالج
تاریخ
داستان یوسف
مولوی محمد اسحاق
مثنوی
چند ہم عصر
خاکے/ قلمی چہرے
موسیٰ سے مارکس تک
سید سبط حسن
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰیتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
ہے لاگ اپنے جی کو اسی اک امیر سےمولا علی وکیل علی بادشا علی
شادی سے پہلے مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹھ تھے۔ کھدر یا لٹھے کی تہبند کی جگہ گلابی رنگ کی سبز دھاری والی ریشمی خوشابی لنگی، دو گھوڑا بوسکی کی قمیص، جس کی آستینوں کی چنٹوں کا شمار سینکڑوں میں پہنچتا تھا۔ اودے رنگ کی مخمل کی واسکٹ جس کی ایک جیب میں قطب نما ہوتا تھا تو دوسری جیب میں نسوارکی نرسئی ڈبیہ ہوتی۔ سر پر بادامی رنگ کی مشہدی لنگی جس میں کلاہ کی مطلا ...
کن فکاں کے بھید سے مولیٰ مجھے آگاہ کرکون ہوں میں گر یہاں پر دوسرا کوئی نہیں
آخر یہ لڑکے کماؤ کیوں نہیں ہوتے۔۔۔ کمبخت اچھے لڑکے پہلے زمانے میں کتنے ہوتے تھے۔ مولی گاجر کی طرح۔ پر اب چاہو کہ آنکھ میں لگانے کے لیے اچھا لڑکا مل جائے تو نہیں، اس لڑائی نے تو اجاڑ کر رکھ دیا۔ چلو بھئی۔۔۔ پہلے لڑکے تو تھے کماؤ! نکٹو پر اب تو جسے دیکھو لڑائی پر چلا جارہا ہے،
مولیٰ، پھر مرے صحرا سے بن برسے بادل لوٹ گئےخیر شکایت کوئی نہیں ہے اگلے برس برسا دینا
اس محفل میں آئے دن اہم ملکی و معاشرتی مسائل پر گرما گرم بحثیں تو ہوا ہی کرتی تھیں۔ مگر اس شام اہل مجلس کاجوش و خروش خاص طور پردیکھنے کے قابل ہوتاجب کوئی صاحب کوئی نئی تجویز لے کر آتے۔ مثلاً ملک کی صحافت روز بروز گرتی جارہی ہے۔ ضرورت ہے کہ صحیح معنوں میں کوئی معقول روزانہ اخبار نکالا جائے۔ مگر معقولیت کے لیے چونکہ مالی ذرائع کا وسیع ہونا ضروری تھا، ...
کشمیری گیٹ دہلی کے ایک فلیٹ میں انور کی ملاقات پرویز سے ہوئی۔ وہ قطعاً متاثر نہ ہوا۔ پرویز نہایت ہی بے جان چیز تھی۔ انور نے جب اس کی طرف دیکھا اور اس کو آداب عرض کہا تو اس نے سوچا، ’’یہ کیا ہے۔۔۔ عورت ہے یا مولی۔‘‘پرویز اتنی سفید تھی کہ اس کی سفیدی بے جان سی ہوگئی تھی۔ جس طرح مولی ٹھنڈی ہوتی ہے اسی طرح اس کا سفید رنگ بھی ٹھنڈا تھا۔ کمر میں ہلکا سا خم تھا جیسا کہ اکثر مولیوں میں ہوتا ہے۔ انور نے جب اس کو دیکھا تو اس نے سبز دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس کو پرویز ہوبہو مولی نظر آئی جس کے ساتھ سبز پتے لگے ہوں۔
ہندو مسلمانوں میں سماجی سطح پر کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ خصوصاً دیہاتوں اور قصبہ جات میں عورتیں زیادہ تر ساڑیاں اور ڈھیلے پائجامے پہنتیں۔ اودھ کے بہت سے پرانے خاندانوں میں بیگمات اب تک لہنگے بھی پہنتیں تھیں۔ لیکن بیاہی لڑکیاں ہندو اور مسلمان دونوں ساڑی کے بجائے کھڑے پائنچوں کا پائجامہ زیب تن کرتیں۔ ہندوؤں کے یہاں اسے ’اجا‘ کہا جاتا۔ مشغلوں کی تقسیم ب...
آنسو کمائے ہیں سو ترے دین کے لئےمولیٰ یہی زکوٰۃ ہے ہم رو نہیں رہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books