aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "نقص"
نقش لائل پوری
1928 - 2017
شاعر
صفی لکھنوی
1862 - 1950
مہیش چندر نقش
1923 - 1980
عباس کیفی
born.1986
مقبول نقش
died.2005
مظفر ایرج
1944 - 2021
میر نقی علی خاں ثاقب
صوفی لکھنوی
رفیق احمد نقش
1959 - 2013
نقی نقوی
born.2009
نقی نیازی
born.2003
نقی محمد خان خورجوی
مصنف
سید علی نقی
محمد نقی رضوی عصر
born.1918
جاوید انصاری
born.1922
میری ہر بات بے اثر ہی رہینقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔
مجھ پر مرے وجود کا ہر نقص ہے عیاںخود ایک آئنہ ہوں میں اپنے وجود میں
’’اس سے بھی مل چکے ہیں۔ خون، پیشاب، تھوک، پھیپھڑے، دل اور آنکھیں ٹیسٹ کرنے کے بعد کہنے لگا، ان میں تو کوئی نقص نہیں معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو نیند سے الرجی ہو گئی ہے۔‘‘’’علاج کیا بتایا؟‘‘
नक़्सنقص
defect, diminution, blemish, flaw
شہید انسانیت
تحقیق و تنقید
نقش فریادی
فیض احمد فیض
مجموعہ
نقد میر
سید عبداللہ
شاعری تنقید
دیوان غالب
مرزا غالب
دیوان
مرزا مظہر جان جاناں
سید تبارک علی نقش بندی
تحقیق
نقش حیات
حسین احمد مدنی
خود نوشت
عمر رفتہ
عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پر
جمیل اختر
فکشن تنقید
سلک گوہر
انشا اللہ خاں انشا
داستان
معرکۂ کربلا
اسلامیات
نقش سلیمانی
محمد اشرف علی لکھنوی
نقد راشد
سعادت سعید
نظر بہ نقص گدایاں کمال بے ادبی ہےکہ خار خشک کو بھی دعواۓ چمن نسبی ہے
یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پرکبھی مکار بیٹھے ہیں کبھی غدار بیٹھے ہیں
اب کے لوگوں کی ہنسی سے میں بھنا گیا۔ اپنی توہین پر بڑا غصہ آیا۔ ارادہ کیا کہ اس دفعہ جو منہ میں آیا کہہ دوں گا۔ ایک دفعہ تقریر شروع کردوں تو پھر کوئی مشکل نہیں رہے گی۔’’پیارے ہم وطنوں! بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آب و ہوا خراب یعنی ایسی ہے کہ ہندوستان میں بہت سے نقص ہیں۔۔۔ سمجھے آپ؟ (وقفہ) نقص ہیں، لیکن یہ بات یعنی امر جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے گویا چنداں صحیح نہیں۔‘‘ (قہقہہ)
”ہم تو ایک روپیہ دیں گے۔“ یہ کہہ کر شریف حسین نے چاہا کہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہو کباڑی کی نظروں سے اوجھل ہو جائے مگر اس نے اس کی مہلت ہی نہ دی، ”اجی سنیے تو، کچھ زیادہ نہیں دیں گے؟ سو ا روپیہ بھی نہیں۔۔۔اچھالے جائیے۔“ شریف حسین کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے بارہ آنے کیوں نہ کہے۔ اب لوٹنے کے سوا کوئی چارہ ہی کیا تھا۔ قیمت ادا کرنے سے پہلے اس نے اس مرمریں ٹکڑے کو اٹھا کر دوبارہ دیکھا بھالا کہ اگر ذرا سا بھی نقص نظر آئے تو اس سودے کو منسوخ کر دے۔ مگر وہ ٹکڑا بے عیب تھا۔ نہ جانے کباڑی نے اسے اس قدر سستا کیوں بیچنا قبول کیا تھا۔
بہتیرا جی چاہا کہ اس دفعہ ان سے پوچھ ہی لوں کہ، ”قبلہ کونین اگر آپ کو بر وقت اطلاع کرا دیتا تو آپ میرے ملیریا کا کیا بگاڑ لیتے؟“ان کی زبان اس قینچی کی طرح ہے جو چلتی زیادہ ہے اور کاٹتی کم۔ ڈانٹنے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی کودن لڑکا زور زور سے پہاڑے یاد کر رہا ہو۔ مجھے ان کی ڈانٹ پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ کیونکہ اب اس کا مضمون ازبر ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس کینڈے کے بزرگوں کی نصیحت میں سے ڈانٹ اور ڈاڑھی کو علیحدہ کر دیا جائے یا بصورت نقص امن ڈانٹ میں ڈنک نکال دیا جائے تو بقیہ بات (اگر کوئی چیز باقی رہتی ہے) نہایت لغو معلوم ہوگی۔
چھ مہینے کی عزلت اور نفس کشی کے بعد لالہ ڈنگا مل نے دوستوں کے اصرار سے دوسری شادی کر لی۔ آخر غریب کیا کرتے۔ زندگی میں ایک رفیق کی ضرورت تو جب ہی ہوتی ہے جب پاؤں میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہتی۔جب سے نئی بیوی آئی ہے۔ لالہ جی کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب ہو گیا ہے۔ دکان سے اب انہیں اس قدر انہماک نہیں ہے۔ متواتر ہفتوں نہ جانے سے بھی ان کے کاروبار میں کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا۔زند گی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت جو ان میں روز بروز مضمحل ہوتی جاتی تھی۔ اب یہ ترشح پاکر پھر سر سبز ہو گئی ہے۔ اس میں نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔ موٹر نیا آ گیا ہے کمرے نئے فرنیچر سے آراستہ کردیے گئے ہیں نوکروں کی تعداد میں معقول اضافہ ہو گیا ہے۔ ریڈیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ لالہ جی کی بوڑھی جوانی جوانوں سے بھی زیادہ پر جوش اور ولولہ انگیز ہو رہی ہے۔ اسی طرح جیسے بجلی کی روشنی چاند کی روشنی سے زیادہ شفاف اور نظر فریب ہوتی ہے۔ لالہ جی کو ان کے احباب ان کی اس جوان طبعی پر مبارک باد دیتے ہیں تو وہ تفاخر کے انداز سے کہتے ہیں، ’’بھئی ہم تو ہمیشہ جوان رہے اور ہمیشہ جوان رہیں گے۔ بڑھاپا میرے پاس آئے تو اس کے منھ پر سیاہی لگا کر گدھے پر الٹا سوار کرکے شہر بدر کردوں۔ جوانی اور بڑھاپے کو لوگ نہ جانے عمر سے کیوں منسوب کرتے ہیں۔ جوانی کا عمر سے اتنا ہی تعلق ہے۔جتنا مذہب کا اخلاق سے۔ روپے کا ایمانداری سے۔حسن کا آرائش سے ۔آج کل کے جوانوں کو آپ جوان کہتے ہیں۔ ارے صاحب میں ان کی ایک ہزار جوانیوں کو اپنی جوانی کے ایک گھنٹہ سے نہ تبدیل کروں۔ معلوم ہوتا ہے زندگی میں کوئی د لچسپی ہی نہیں کوئی شوق ہی نہیں۔ زندگی کیا ہے گلے میں پڑا ہوا ڈھول ہے۔‘‘ یہی الفاظ وہ کچھ ضروری ترمیم کے بعد آشا دیوی کے لوح دل پر نقش کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ہمیشہ سنیما، تھیٹر، سیر دریا کے لیے اصرار کرتے ہیں لیکن آشا نہ جانے کیوں ان دلچسپیوں سے ذرا بھی متاثر نہیں، وہ جاتی تو ہے مگر بہت اصرار کے بعد۔ ایک دن لالہ جی نے آکر کہا۔’’چلو آج بجر ے پر دریا کے سیر کر آئیں۔‘‘
اس جنگ میں ہر اس و تردد ہے سر بہ سرایماں کا نقص جان کا خوف آبرو کا ڈر
نیوٹن اور ارسطو میں اسی قدر زبردست قوت تخئیل تھی جس قدر ہومر اور فردوسی میں، البتہ دونوں کے اغراض و مقاصد مختلف ہیں اور دونوں کی قوت تخئیل کے استعمال کا طریقہ الگ الگ ہے۔ فلسفہ اور سائنس میں قوت تخئیل کا استعمال اس غرض سے ہوتا ہے کہ ایک علمی مسئلہ حل کردیا جائے۔ لیکن شاعری میں تخئیل سے یہ کام لیا جاتا ہے کہ جذبات انسانی کو تحریک ہو۔فلسفی کو صرف ان موجودات سے غرض ہے جو واقع میں موجود ہیں۔ بخلاف اس کے شاعر ان موجودات سے بھی کام لیتا ہے جو مطلق موجود نہیں، فلسفہ کے دربار میں، ہما، سیمرغ، گاو زمین، تخت سلیمان کی مطلق قدر نہیں، لیکن یہی چیزیں ایوان شاعری کے نقش و نگار ہیں۔ فلسفی کی زبان سے اگر سیمرغ زرّیں پر کا لفظ نکل جائے تو ہر طرف سے ثبوت کا مطالبہ ہوگا، لیکن شاعر اس قسم کی فرضی مخلوقات سے اپنا عالم خیال آباد کرتا ہے اور کوئی اس سے ثبوت کا طالب نہیں ہوتا، کیونکہ فلاسفر کی طرح وہ کسی مسئلہ کی تعلیم کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ وہ ہم کو صرف خوش کرنا چاہتا ہے اوربے شبہ وہ اس میں کامیاب ہوتا ہے،۔ ایک پھول کو دیکھ کر سائنس دان تحقیق کرنا چاہتا ہے کہ وہ نباتات کے کس خاندان سے ہے، اس کے رنگ میں کن رنگوں کی آمیزش ہے، اس کی غذا زمین کے کن اجزاء سے ہے؟ اس میں نر و مادہ دونوں کے اجزا ہیں یا صرف ایک کے؟ لیکن شاعر کو ان چیزوں سے غرض نہیں،پھول دیکھ کر بے اختیار اس کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے،
انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکےتم اس کو نقص آب و ہوا کہہ لیا کرو
امی اس فوجی ہٹ کو دیکھ کر سوں سوں کرنے لگیں۔ سجاد کو کہنے سننے کا کیا موقع ملتا۔ وہ تو پہلے ہی ہاتھ کٹوا چکا تھا تاجی کو بہن کہہ چکا تھا۔ اب پت رکھنی لازم تھی۔ بظاہر اس میں کسی قسم کا نقص بھی نکال سکتا تھا۔ جب امی بالآخر سرتاج کے گھر روانہ ہوئیں تو بیچارے پر ایسی اوس پڑی کہ منہ سر لپیٹ کر اوندھا لیٹا رہا۔ کبھی جی کو سمجھاتا کہ بہن کہہ کر نہ سمجھنا ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books