aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ہاتھی"
کمل ہاتوی
born.1971
شاعر
پریس ہاتھی راقم
born.1978
سید علی شبر ہاتمی
مدیر
کچھ جگمگ جگنو جنگل سےکچھ جھومتے ہاتھی بادل سے
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیںوہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کےکیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے
جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں، تو پاس کی دیواروں پر اس کی پرچھائیں ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔معاف کیجیے گا، میں آپ کو خود اپنے لحاف کا رومان انگیز ذکر بتانے نہیں جا رہی ہوں۔ نہ لحاف سے کسی قسم کا رومان جوڑا ہی جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں کمبل کم آرام دہ سہی، مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک نہیں ہوتی جتنی جب لحاف کی پرچھائیں دیوار پر ڈگمگا رہی ہو۔
بڑی بڑی عمارتیں آنے لگیں۔ یہ عدالت ہے۔ یہ مدرسہ ہے۔ یہ کلب گھر ہے۔ اتنے بڑے مدرسے میں کتنے سارے لڑکے پڑ ھتے ہوں گے۔ لڑکے نہیں ہیں جی بڑے بڑے آدمی ہیں۔ سچ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔ اتنے بڑے ہوگئے اب تک پڑھنے جاتے ہیں۔ آج تو چھٹی ہے لیکن ایک بار جب پہلے آئے تھے۔ تو بہت سے داڑھی مونچھوں والے لڑکے یہاں کھیل رہے تھے۔ نہ جانے کب تک پڑھیں گے۔ اور کیا...
موت ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھنے کا ہے اور نہ سمجھانے کا۔ شاعروں اور تخلیق کاروں نے موت اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں سب سے زیادہ ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن حاصل ایک بےاننت اداسی اور مایوسی ہے ۔ یہاں ہم موت پر اردو شاعری سے کچھ بہترین اشعار پیش کر رہے ہیں۔
امیدوں کی ایک دھند ہے اورکچھ ایسا ہے جوصاف دکھتا بھی نہیں اورچھپتا بھی نہیں ۔ اسے کے سہارے زندگی چل رہی ہے ۔ سب کچھ ہاتھ سے چلے جانے کے بعد اگرکچھ بچتا ہے تووہ امید ہی ہے ۔ شاعری کے عاشق کے پاس بھی بس یہی ایک اثاثہ ہے ، وہ اسی کے سہارے زندہ ہے ۔ جو طویل رات وہ ہجر کے دکھوں میں گزاررہا ہے اس کی بھی اسے سحرنظرآتی ہے ۔ ہم یہ انتخاب اس لئے بھی پیش کررہے ہیں کہ یہ زندگی کے مشکل ترین وقتوں میں حوصلہ مندی کا استعارہ ہے ۔
محبوب کی ایک صفت بد گماں ہو جانا بھی ہے ۔ وہ عاشق کو آزار پہنچانے کا کوئی طریقہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ایسی باتوں پر بدگماں ہوجاتا ہے جو بظاہر بدگماں ہونے کی بھی نہیں ہوتیں اور تعلق ختم کرلیتا ہے ۔ اس قسم کے تجربے ہمارے آپ کے روزمرہ کے تجربے ہیں لیکن ہم اور آپ صرف اپنے اپنے تجربوں کو جیتے ہیں ۔ بدگمانی ،اس کی مختلف صورتوں اور کیفیتوں کو موضوع بنانے والی شاعری کا یہ انتخاب پڑھئے اور تجربوں کی کثرت کا لطف اٹھائیے ۔
हाथीہاتھی
Elephant
ہری اور دوسرے ہاتھی
شنکر
افسانہ
دو ہاتھ
عصمت چغتائی
کہانیاں/ افسانے
بہادر شاہ بادشاہ کا مولا بخش ہاتھی
میر باقر علی
ہاتھی کا انڈا
نامعلوم مصنف
ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
راجندر سنگھ بیدی
نصابی کتاب
ڈوبتے بدن کا ہاتھ
ریاض مجید
طلسمی ہاتھی
شیو ناتھ رائے
بہادر شاہ کا مولا بخش ہاتھی
نیند کی مسافتیں
عذرا عباس
شاعری
کٹا ہوا ہاتھ
شمیم حنفی
بندہ مومن کا ہاتھ
بائیں ہاتھ کا کھیل (ہائیکو)
حنیف کیفی
ہائیکو
سینہ چھاتی دست ہاتھ اور پا پاؤںشاخ ٹہنی برگ پتا سایہ چھانو
جس وقت یہ دونوں بیل ہل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہلاہلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ بوجھ میر ی ہی گردن پر رہے۔ کام کے بعد دوپہر یا شام کو کھلتے، تو ایک دوسرے کو چوم چاٹ کر اپنی تھکان اتار لیتے ۔ ناند میں کھلی بھوسا پڑجانے کے بعد دونوں ایک ساتھ اٹھتے۔ ایک ساتھ ناند میں منہ ڈالتے اور ایک ہی ساتھ بیٹھتے ایک منہ ہٹا لیتا تو د...
ستم اس کے ہاتھو سے رویا کرےسدا فتنۂ دہر سویا کرے
(۱)بینی مادھو سنگھ موضع گوری پور کے زمیندار نمبر دار تھے۔ ان کے بزرگ کسی زمانے میں بڑے صاحب ثروت تھے۔ پختہ تالاب اور مندر انھیں کی یاد گار تھی۔ کہتے ہیں اس دروازے پر پہلے ہاتھی جھومتا تھا۔ اس ہاتھی کا موجودہ نعم البدل ایک بوڑھی بھینس تھی جس کے بدن پر گوشت تو نہ تھا مگر شاید دودھ بہت دیتی تھی۔ کیونکہ ہر وقت ایک نہ ایک آدمی ہانڈی لئے اس کےسر پر سوار رہتا تھا۔ بینی مادھو سنگھ نے نصف سے زائد جائیداد وکیلوں کی نذر کی اور اب ان کی سالانہ آمدنی ایک ہزار سے زائد نہ تھی۔
یاد نہیں کب اس کے شبنمی دوپٹے بنے ٹکے تیار ہوئے اور گاڑی کے بھاری قبر جیسے صندوق کی تہہ میں ڈوب گئے۔ کٹوریوں کے جال دھندلا گئے۔ گنگا جمنی کرنیں ماند پڑ گئیں۔ طولی کے لچھے اداس ہو گئے مگر کبریٰ کی برات نہ آئی۔ جب ایک جوڑا پرانا ہو جاتا تو اسے چالے کا جوڑا کہہ کر سینت دیا جاتا اور پھر ایک نئے جوڑے کے ساتھ نئی امیدوں کا افتتاح ہو جاتا۔ بڑی چھان بین کے...
ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہوجائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالوں میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹرکار گزرجاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی موٹرکار کو دیکھوں، مجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جاسکے۔ اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے گزر جائے کہ گردوغبار میرے پھیپھڑوں، میرے دماغ، میرے معدے اور میری تلی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آکر علم کیمیا کی وہ کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی اور اس غرض سے اُس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آجائے۔
ایک ہاتھی ایک راجہ ایک رانی کے بغیرنیند بچوں کو نہیں آتی کہانی کے بغیر
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔمفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
چھو رہا ہے چہرے کواک نوالا ہاتھی کا
ہاتھی دیکھے بھاری بھرکمان کا چلنا کم کم تھم تھم
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books