aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "नंगी"
نذیر بنارسی
1909 - 1996
شاعر
صفی لکھنوی
1862 - 1950
علیم اختر مظفر نگری
1914 - 1972
انیس ناگی
1939 - 2010
مصنف
شہناز نبی
فرید پربتی
1961 - 2011
عباس کیفی
born.1986
ابرار نغمی
اجے نیگی
born.1998
ارشد مینا نگری
born.1942
افسر سیمابی احمد نگری
میر نقی علی خاں ثاقب
اشرف مولا نگری
born.1958
عالم مظفر نگری
1901 - 1969
موہت نیگی منتظر
born.1995
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیںکہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
تلتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہے کہیں بازاروں میںننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیںیہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہےلمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھاکشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
ماں سے محبت کا جذبہ جتنے پر اثر طریقے سے غزلوں میں برتا گیا ہے، اتنا کسی اور صنف میں نہیں۔ ہم ایسے کچھ منتخب اشعار آپ تک پہنچا رہے ہیں، جو ماں کو موضوع بناتے ہیں۔ ماں کے پیار، اس کی محبت ، شفقت اور اپنے بچوں کے لئے اس کی جاں نثاری کو واضح کرتے ہوئے یہ اشعار جذبے کی جس شدت اور احساس کی جس گہرائی سے کہے گئے ہیں، اس سے متاثر ہوئے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔ ان اشعار کو پڑھئے اور ماں سے محبت کرنے والوں کے درمیان شئیر کیجئے ۔
ایک صحت مند مزاح زندگی کے ہر لمحے میں ضروری ہوتا ہے، یہاں ہم آپ کے لیے اہم اردو شاعروں کی ۱۵ ایسی نظموں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں جو مزاح سے بھر پور ہیں، آپ انہیں پڑھیے اور زندگی کے بھاری پن کو کچھ کم کیجیے
شہید انسانیت
سید علی نقی
تحقیق و تنقید
جو عورت ننگی ہے
رام لعل
افسانہ
پاکستان اردو ادب کی تاریخ
نبی عربی
قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی
تاریخ
لغات طب
حکیم غلام نبی
طب
تانیثی تنقید
تنقید
جدید دستورِ علاج
عمر رفتہ
نقی محمد خان خورجوی
اور بستی نہیں یہ دلّی ہے
رفعت سروش
خود نوشت
شعری لسانیات
دیوار کے پیچھے
ناول
نیا شعری افق
شاعری تنقید
معرکۂ کربلا
اسلامیات
دی پرافٹ نبی
جبران خلیل جبران
رزمیہ
اقبال اور تحریک آزادی کشمیر
غلام نبی خیال
سیاسی تحریکیں
ترے زیر نگیں گھر ہو محل ہو قصر ہو کچھ ہومیں یہ کہتا ہوں تو ارض و سما لیتی تو اچھا تھا
دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیںدل اسی غم کی راجدھانی ہے
کہتے ہیں کہ نو اپریل کی شام کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلو کی جلا وطنی کے احکام ڈپٹی کمشنر کو مل گئے تھے۔ وہ ان کی تعمیل کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے خیال کے مطابق امرتسر میں کسی ہیجان خیز بات کا خطرہ نہیں تھا۔ لوگ پرامن طریقے پر احتجاجی جلسے وغیرہ کرتے تھے۔ جن سے تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہو...
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیںوفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
مہاراجہ گ سے ریس کورس پر اشوک کی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دونوں بے تکلف دوست بن گئے۔مہاراجہ گ کو ریس کے گھوڑے پالنے کا شوق ہی نہیں خبط تھا۔ اس کے اصطبل میں اچھی سے اچھی نسل کا گھوڑا موجود تھا۔ اور محل میں جس کے گنبد ریس کورس سے صاف دکھائی دیتے تھے، طرح طرح کے عجائب موجود تھے۔اشوک جب پہلی بار محل میں گیا تو مہاراجہ گ نے کئی گھنٹے صرف کرکے اسکو اپنے تمام نوادر دکھائے۔ یہ چیزیں جمع کرنے میں مہاراجہ کو ساری دنیا کا دورہ کرنا پڑا تھا۔ ہر ملک کا کونہ کونہ چھاننا پڑا تھا۔ اشوک بہت متاثر ہوا۔ چنانچہ اس نے نوجوان مہاراجہ گ کے ذوقِ انتخاب کی خوب داد دی۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد ناموہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اس کا سینہ اندر سے تپ رہا تھا۔ یہ گرمی کچھ تو اس برانڈی کے باعث تھی جس کا ادّھا دروغہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ اور کچھ اس ’بیوڑا‘ کا نتیجہ تھی جس کا سوڈا ختم ہونے پر دونوں نے پانی ملا کر پیا تھا۔وہ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ اس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی اس کانپ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جدا ہو جائے۔ دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت ابھرا ہوا تھا۔ جو بار بار موڑنےکے باعث نیلی رنگت اختیار کرگیا تھا۔ جیسے نچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔
مجھے قید خوف سے رہا کرومیں اپنے درد کی ننگی دھوپ سے
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئےیہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
گھر میں وہ بالکل اکیلا تھا۔ اس کی بہن مری میں تھی۔ ماں بھی اس کے ساتھ تھی۔ باپ مر چکا تھا۔ ایک بھائی، اس سے چھوٹا، وہ بورڈنگ میں رہتا تھا۔ سریندر کی عمر ستائس اٹھائیس سال کے قریب تھی۔ اس سے قبل وہ اپنی دو ادھیڑ عمر کی نوکرانیوں سے دو تین مرتبہ سلسلہ لڑا چکا تھا۔معلوم نہیں کیوں، لیکن موسم کی خرابی کے باوجود سریندر کے دل میں یہ خواہش ہورہی تھی کہ وہ پیپل کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی لڑکی کے پاس جائے یا اسے اوپر ہی سے اشارہ کرے تاکہ وہ اس کے پاس آجائے، اور وہ دونوں ایک دوسرے کے پسینے میں غوطہ لگائیں اور کسی نامعلوم جزیرے میں پہنچ جائیں۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books