aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "नीव"
نیل احمد
born.1988
شاعر
سوپنیل یادو نیل
born.2003
نونہال ادب ہمدرد فاؤنڈیشن، پاکستان
ناشر
حلقۂ آہنگ نو، کراچی
گوکل داس دھوت نو یگ ساہتیہ سدن، اندور
مکتبہ نو، دلی
نو یگ پریس، دہلی
منشی نیم چند کھتری
born.1830
مصنف
نو ہند پبلیشرز لمیٹڈ، ممبئ
نتھانیل ہتھوڈن
عبد الرؤف نو شھروی
نیل پدمنا بھن
نیل۔پدمنا بھن
تحریر نوع پبلی کیشنز
دائرہ تحریر نو، کلکتہ
وہ دیکھتے ہیں تو لگتا ہے نیو ہلتی ہےمرے بیان کو بندش نگل نہ جائے کہیں
دلوں میں اہل زمیں کے ہے نیو اس کی مگرقصور خلد سے اونچا ہے بام آزادی
پڑی نیو آپس میں گو دوستی کی مگر دوستی کس طرح نبھ سکے گیاسے ہے نزاکت مجھے ہے نقاہت نہ وہ آنے والا نہ میں جانے والا
آج تیوہار ہے، نہان کا دن ہے۔ صبح سویرے سے دریا کے کنارے کے مندروں اور گھاٹوں پر بھیڑ ہے۔ لوگ منتر پڑھتے ہیں اور ڈبکیاں لیتے جاتے ہیں۔ دریا کا پانی میلا معلوم ہوتا ہے۔ لہروں پر گیندے اور گلاب کے پھولوں کی پنکھڑیاں اوپر نیچے ہوتی ہوئی بہتی چلی جا رہی ہیں۔ کہیں کہیں کناروں پر جا کر بہت سے پھول، پتیاں، چھوٹے چھوٹے لکڑی کے ٹکڑے پیے ہوئے سگریٹ، عورتوں کے...
دوسروں کو کیا نام رکھیں، ہم خود بیسیوں چیزوں سے چڑ تے ہیں۔ کرم کلا، پنیر، کمبل، کافی اور کافکا، عورت کا گانا، مرد کا ناچ، گیندے کا پھول، اتوار کا ملاقاتی، مرغی کا گوشت، پاندان، غرارہ، خوبصورت عورت کا شوہر۔۔۔ زیادہ حد ادب کہ مکمل فہرست ہمارے فرد گناہ سے بھی زیادہ طویل اور ہری بھری نکلے گی۔ گنہ گار سہی لیکن مرزا عبد الودود بیگ کی طرح یہ ہم سے آج تک ...
اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف
پاکستان کے معروف ترین اور محترم جدید شاعروں میں سے ایک، اپنے نوکلاسیکی آہنگ کے لیے معروف
نیند اور خواب شاعری میں بہت مرکزی موضوع کے طور پر نظر آتے ہیں ۔ ہجر میں نیند کا عنقا ہوجانا ، نیند آئے بھی تو محبوب کے خواب کا غائب ہوجانا اور اس طرح کی بھی بہت سی دلچسپ صورتیں اس شاعری میں موجود ہیں ۔
नीवنیو
foundation
نو طرز مرصع
میر محمد حسین عطا خان تحسین
داستان
معرفت شعر نو
شمس الرحمن فاروقی
شاعری تنقید
انتخاب نو
شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
انتخاب
اردو نحو
محمد انصار اللہ
مہر دو نیم
افتخار عارف
مجموعہ
مضامین نو
خلیل الرحمن اعظمی
تنقید
قصہ گل و صنوبر
تیر نیم کش
سید محمد جعفری
شاعری
کاغذ کی ناؤ
کرشن چندر
ناول
سفر تمام ہوا
دو نیم
مسعود حسین خاں
نیند کی مسافتیں
عذرا عباس
افسانوی ادب
شاعر فتح پوری
غیرنامیاتی کیمیا
سائنس
یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کرکے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گابجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیل تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں...
شاہ جہاں بادشاہ نے آگرہ کی مچ مچاتی گرمی سے بچنے کے لئے دلی کو حکومت کا صدر مقام بنانے کے لئے پسند کیا اور جمنا کے کنارے قلعہ معلیٰ کی نیو پڑی۔ یہاں ہو کا عالم تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمنا کے کنارے کنارے ہلالی شکل میں شہر آباد ہونا شروع ہو گیا۔ ہزاروں مزدور قلعہ کی تعمیر میں لگ گئے۔ ان کے بال بچے، کنبے، قبیلے والے سب مل ملا کر لاکھ ڈیڑھ لاکھ آدمی ...
فلک نے بھی نہ ٹھکانا کہیں دیا ہم کومکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی
ناری جگ کی نیو ہے رشتوں کا آدھارجیسی نظریں ڈالیے ویسا لے آکار
گھر کھود دیا سارا خزانے کی ہوس میںنیو آ گئی تہہ خانے کا در ہی نہیں آیا
اس دوران سالک صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، دفتر زمیندار ہی میں ان سے تعارف ہوا لیکن اس تعارف سے صرف علیک سلیک کا راستہ کھلا۔ وہ اپنی ذات میں مستغرق تھے ہم اپنے خیال میں منہمک، تاثر یہی رہا کہ سالک صاحب ٹوڈی اور انقلاب ٹوڈی بچہ ہے۔سالک صاحب ہمیں کیا رسید دیتے وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ادھر زمیندار نے ہمیں یہاں تک فریفتہ کر رکھا تھا کہ انقلاب کو ہم نے خود ہی ممنوع قرار دے لیا تھا۔ پانچ سات برس اسی میں نکل گئے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو لمبی لمبی قیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم کوئی دس گیارہ نوجوان منٹگمری سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ سخت قسم کی تنہائی میں دن گزارنا مشکل تھا، قرطاس و قلم موقوف، کتب و رسائل پر قدغن، جرائد و صحائف پر احتساب، یہاں تک کہ عزیزوں کے خط بھی روک لیے جاتے۔ وحشت ناک تنہائی کا زمانہ۔ جیل کے افسروں سے بارہا مطالبہ کیا کہ اخبار مہیا کریں لیکن ہر استدعا مسترد ہوتی رہی۔ جب پانی سر سے گزرگیا تو ہم نے بھوک ہڑتال کردی، نتیجتاً حکومت کو جھکنا پڑا۔ ’’سول‘‘اور ’’انقلاب‘‘ ملنے لگے۔ ہمارے وارڈ کا انچارج ایک مذہبی سکھ سردار شیر سنگھ تھا، کالا بھجنگ، بدہیئت اور بدرو۔ قیدیوں کو ستانے میں اسے خاص لطف محسوس ہوتا، یہی اس کی خصوصیت تھی۔ چوں کہ اخبار اس کی مرضی کے خلاف ملے تھے اور اسے سنسر کرنے کا اختیار تھا لہٰذا ہر روز اخبار کے مختلف صفحے قینچی سے اس طرح کاٹتا کہ سارا اخبار بے مزہ ہوجاتا، سیاسی خبریں تو بالکل ہی کٹ کے آتی تھیں۔ یہی زمانہ تھا جب افکار و حوادث سے روز مرہ کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ شیر سنگ کو پتہ چلا کہ افکار و حوادث باجماعت پڑھے اور سنے جاتے ہیں تو اس نے افکار و حوادث کاٹنا شروع کیے۔ پہلے دن ہمارا خیال تھا کہ کوئی سیاسی خبر کاٹی ہوگی۔ جب ہر روز قینچی چلنے لگی تو ہم نے شیرسنگھ کو متوجہ کیا، وہ معمول کے مطابق طرح دے گیا۔ ہم نے احتجاج کیا اس کابھی اس پر کوئی اثر نہ ہوا، ہم نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی، وہ مسکراکے ٹال گیا۔ آخر کار بھوک ہڑتال کی نیو اٹھائی تو وہ اگلے ہی روز پسپا ہوگیا۔ افکار و حوادث مقراض سے محفوظ ہوگئے۔ بظاہر یہ ایک لطیفہ تھا کہ جس اخبار کو ہم سرکاری مناد سمجھتے اور جس کالم میں قومی تحریکوں یا قومی شخصیتوں پر سب سے زیادہ پھبتیاں کسی جاتی تھیں ہم نے اسے بھوک ہڑتال کرکے حاصل کیا۔
ایک انوکھا گرہ بنایااوپر نیو نیچے گھر چھایا
شہر کے پکے مکانوں میں دراریں آ گئیںگاؤں کے کچے گھروں کی نیو پکی تھی بہت
یہ دنیا خوف اور لالچ پہ جس کی نیو رکھی ہےاسی مٹی سے پھوٹے ہیں اسی دھرتی کے پالے ہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books