aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "शाने"
سیدہ شانِ معراج
born.1948
شاعر
خالد ندیم شانی
شان حیدر بیباک امروہوی
مصنف
کتب خانہ شان اسلام، لاہور
ناشر
منشی شان الٰہی صاحب زبیری
شان بھارتی
1947 - 2019
شان الرحمن
شان زہرہ
مدیر
ماہنامہ شان ہند، نئی دہلی
مکتبہ شان ہند، دہلی
شان ہند پبلی کیشن، نئی دہلی
شافع قدوائی
born.1960
مطبع فیض منبع شام اودھ
شانی
born.1933
شان محمد
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیںڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
رات کے شانے پر سر رکھےدیکھ رہا ہے سپنا چاند
اے مرے صبح و شام دل کی شفقتو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کاتری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہےخراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
شاعروں نے دلی کو عالم میں انتخاب ایک شہر بھی باندھا ہے اور بھی طرح طرح سے اس کے قصیدے پڑھے گئے ہیں لیکن تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس شہر کی ساری رونقیں ختم کر دی گئیں ، اس کے گلی کوچے ویران ہو گئے اور اس کی ادبی وتہذیبی مرکزیت ختم ہوگئی، بے حالی کے عالم میں لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے اور پورے شہر پر ایک مردمی چھا گئی۔ اس صورتحال نے سب سے زیادہ گہرا اور دیر پا اثر تخلیق کاروں پر چھوڑا ۔ شاعروں نے دلی کو موضوع بنا کر جو شعر کہے وہ بیشتر دلی کی اس صورتحال کا نوحہ ہیں ۔
शानेشانے
shoulders
مرثیہ بعنوان علم
مرثیہ
صبر
تحقیق
راہ صداقت
خواتین نمبر: شمارہ نمبر ۔012
سرور تونسوی
شان ہند
فکشن مطالعات پس ساختیاتی تناظر
فکشن تنقید
ہندوستان کی یونیورسیٹیوں میں اردو تحقیق
شاہانہ مریم شان
خواتین کی تحریریں
شمارہ نمبر ـ 009
محروم نمبر: شمارہ نمبر ۔001
غالب اور شاہان تیموریہ
خلیق انجم
سرسید تاریخی و سیاسی آئینے میں
تنقید
ساحل سیپ سمندر
مجموعہ
شان وطن
بشیر الدین راز
شمارہ نمبر۔006
سید محمد میاں
Jun 2010کتاب نما، نئی دلی
شمارہ نمبر ۔006
شب فراق سے آگے ہے آج میری نظرکہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی
ہری شاخ ملت ترے نم سے ہےنفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
کوئی سانس بھرے مرے پہلو میں کوئی ہاتھ دھرے مرے شانے پراور دبے دبے لہجے میں کہے تم نے اب تک بڑے درد سہے
اف یہ زمیں کی گردشیں آہ یہ غم کی ٹھوکریںیہ بھی تو بخت خفتہ کے شانے ہلا کے رہ گئیں
اختر بنے جو پھول تو شاخیں بنیں ہلالپتے تمام آئینۂ نور ہو گئے
جوہر کے دکھانے میں یہ شمشیر خدا ہے اور سر کے کٹانے میں یہ شاہ شہدا ہے
اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی، پھر رک جاتی، پھر تیزی سے چلنے لگتی۔ اس نے میرے شانے کو اپنی انگلیوں سے چھوا اور پھر اپنا سر وہاں رکھ دیا اور اس کے گہرے سیاہ بالوں کا پریشان گھنا جنگل دور تک میری روح کے اندر پھیلتا چلا گیا اور میں نے اس سے کہا، ’’سہ پہر سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘اس نے ہنس کر کہا، ’’اب رات ہو گئی ہے، بڑی اچھی رات ہے۔‘‘ اس نے اپنا کمزور ننھا چھوٹا سا ہاتھ میرے دوسرے شانے پر رکھ دیا اور جیسے بادام کے پھولوں سے بھری شاخ جھک کر میرے کندھے پر سو گئی۔
جب میں نے بیگم جان کو دیکھا تو وہ چالیس بیالیس کی ہوں گی۔ افوہ کس شان سے وہ مسند پر نیم دراز تھیں اور ربو ان کی پیٹھ سے لگی بیٹھی کمر دبا رہی تھی۔ ایک اودے رنگ کا دوشالہ ان کے پیروں پر پڑا تھا اور وہ مہارانی کی طرح شاندار معلوم ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی شکل بے انتہا پسند تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ گھنٹوں بالکل پاس سے ان کی صورت دیکھا کروں۔ ان کی رنگت ...
وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پروہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندیمقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books