aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "sham-e-amn"
عبدالقادر ابن ملوک شاہ
مصنف
ہو گیا تار تار ہر منظرشامؔ چاک نظر سیا جائے
اک اک پلک پہ چھائی ہے محرومیوں کی شامضبط سخن کی آگ میں جلتے لبوں کو دیکھ
کچھ تو کہتی ہے سر شام سمندر کی ہواکبھی ساحل کی خنک ریت پہ جائیں تو سہی
اک پل میں ہی بتلا گئیں دم توڑتی کرنیںوہ راز جو اے شامؔ نہ پایا مجھے دن بھر
یادیں کھلے کواڑ یہ مہکی ہوئی فضاکون آ رہا ہے شام یہ ٹھنڈی ہوا کے بعد
وزیر علی صبا لکھنؤی تقریباً ۱۸۵۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد تھے۔ دو سو روپیہ واجد علی شاہ کی سرکار سے اور تیس روپیہ ماہوار نواب محسن الدولہ کے یہاں سے ملتا تھا۔ افیون کے بہت شوقین تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا اس کی تواضع منجملہ دیگر تکلفات افیون سے بھی ضرور کرتے۔ ۱۳؍جون ۱۸۵۵ء کو لکھنؤ میں گھوڑے سے گرکر انتقال ہوا۔ ایک ضخیم دیوان’’غنچۂ آرزو‘‘ ان کی یادگار ہے۔
شام کا تخلیقی استعمال بہت متنوع ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ آپ ہمارے اس انتخاب سے لگا سکیں گے کہ جس شام کو ہم اپنی عام زندگی میں صرف دن کے ایک آخری حصے کے طور دیکھتے ہیں وہ کس طور پر معنی اور تصورات کی کثرت کو جنم دیتی ہے ۔ یہ دن کے عروج کے بعد زوال کا استعارہ بھی ہے اور اس کے برعکس سکون ،عافیت اور سلامتی کی علامت بھی ۔ اور بھی کئی دلچسپ پہلو اس سے وابستہ ہیں ۔ یہ اشعار پڑھئے ۔
شمع رات بھر روشی لٹانے کیلئے جلتی رہتی ہے ، سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں لیکن اس کے اپنے دکھ اور کرب کو کوئ نہیں سمجھتا ۔ کس طرح سے سیاہ کالی رات اس کے اوپر گزرتی ہے اسے کوئی نہیں جانتا ۔ تخلیق کاروں نے روشنی کے پیچھے کی ان تمام ان کہی باتوں کو زبان دی ہے ۔ خیال رہے کہ شاعری میں شمع اور پروانہ اپنے لفظی معنی اور مادی شکلوں سے بہت آگے نکل کر زندگی کی متنوع صورتوں کی علامت کے طور پر مستعمل ہیں ۔
शम-ए-अम्नشمع امن
lamp of peace
تذکار شاہ امین
حسن نواز شاہ
سوانح حیات
شان امن
رئیسہ بیگم
مضامین
شارع عام
قمر قریشی
رومانی
چراغ ایمان
نامعلوم مصنف
زبان و ادب
شان غوث الوریٰ
محمد امان علی ثاقب
نظم
مطبوعات منشی نول کشور
شان غریب نواز
شاعری
افادات ابن عربی
محی الدین ابن عربی
فلسفہ تصوف
سفر نامۂ حجاز، شام و مصر
امتہ الغنی نورالنساء
شان محبوب الہی
شان مخدوم صابر پاک
ملفوظات
شب شہادت
سید ابن حسین نقوی
اسلامیات
شان حرمین الشرفین
شان قطب العرفان
چشتیہ
شان ہندالولی
تصوف
رک گیا وقت پلٹ آئی ہیں بیتی صدیاںیہی وہ لمحہ ہے جب شامؔ بکھرنا ہے مجھے
میں ہوں شکار فتنۂ احساس رنگ شامؔکس طرح ایک جسم کی تقسیم ہو گئی
یہ تیری بے زری اور حاسدوں کا یہ حسد توبہاگر اے امنؔ تیرے پاس زر ہوتا تو کیا ہوتا
ہر اک ٹھوکر پہ ہے اے امنؔ لغزش کا گماں مجھ کوہر اک پتھر نظر سنگ در مے خانہ آتا ہے
ہم نے مانا کہ شب غم کی سحر ہوتی ہےزیست کی شام نہ ہو جائے سحر ہونے تک
خود کو شاہوں کا شاہ سمجھوں گاگر ملے خاک پائے یار مجھے
فرصت شعر و سخن امنؔ کو کم ہے لیکنشعر گوئی کا ابھی حوصلہ سا ہے تو سہی
اکثر ہوا ایسا کہ بھرے گھر میں سر شامتنہائی کے آسیب در و بام سے برسے
تمام جستجوئے شوق رائیگاں اے شامؔمجھے خبر ہے پس انتظار کیا ہوگا
اس سفر میں بھی مجھے اے شامؔ مایوسی ملیخواہشیں کٹ کر گریں محرومیوں کی دھار سے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books