تمام
تعارف
غزل233
شعر396
ای-کتاب1037
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 45
آڈیو 82
ویڈیو 289
مرثیہ1
قطعہ28
رباعی34
قصہ18
بلاگ12
دیگر
سہرا3
غیر متداول غزلیں238
قادر نامہ1
قصیدہ10
سلام1
مخمس1
مثنوی3
غیرمتداول اشعار59
خط48
مرزا غالب کے خطوط
بنام منشی شیو نارائن آرام (۳)
صاحب! میں ہندی غزلیں بھیجوں کہاں سے، اُردو کے دیوان چھاپے کے ناقص ہیں۔ بہت غزلیں اس میں نہیں ہیں۔ قلمی دیوان جو اتم و اکمل تھے، وہ لٹ گئے۔ یہاں سب کو کہہ رکھا ہے کہ جہاں بکتا ہوا نظر آئے، لے لو۔ تم کو بھی لکھ بھیجا اور ایک بات اور تمہارے خیال میں
بنام میر مہدی مجروح (۳)
بھائی! تم تو لڑکی کی سی باتیں کرتے ہو۔ جو ماجرا میں نے سنا تھا، وہ البتہ موجب تشویش تھا۔ تمہاری تحریر سے وہ تشویش رفع ہو گئی پھر تم کیوں ہائے واویلا کرتے ہو؟ اوپر کا حاکم موافق ہے۔ ماتحت کا حاکم، جو مخالف تھا، سو گیا۔ پھر کیا قصہ ہے؟ ’’قاطع برہان‘‘
بنام میر مہدی مجروح (۲)
کیوں یار، کیا کہتے ہو؟ ہم کچھ آدمی کام کے ہیں یا نہیں؟ تمہارا خط پڑھ کر دو سو بار یہ شعر پڑھا، وعده وصل چوں شود نزدیک آتش شوق تیز تر گردد کلو کو مولوی مظہر علی صاحب کے پاس بھیج کر کہلا بھیجا کہ آپ کہیں جائے گا نہیں، میں آتا ہوں بھلا بھائی اچھی حکمت
بنام میر مہدی مجروح (۷)
مارڈالا یار، تیری جواب طلبی نے۔ اس چرخ کج رفتار کا برا ہو، ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا۔ ملک و مال و جاہ و جلال کچھ نہیں رکھتے تھے۔ ایک گوشہ و توشہ تھا چند مفلس و بے نوا ایک جگہ فراہم ہو کر کچھ نہیں ہنس بول لیتے تھے۔ سو بھی نہ تو کوئی دم، دیکھ سکا اے
بنام میر مہدی مجروح (۸)
میری جان! تو کیا کہہ رہا ہے؟ پینے سے سیانا سودیوانہ۔ صبر و تسلیم و توکل و رضا، شیوہ صوفیہ کا ہے۔ مجھ سے زیادہ اس کو کون سمجھے گا، جو تم مجھ کو سمجھاتے ہو؟ کیا میں یہ جانتا ہوں کہ ان لڑکوں کی پرورش میں کرتا ہوں؟ استغفر الله لا موثر فی الوجود الا اللہ۔
بنام میر مہدی مجروح (۱۰)
میر مہدی! تم میرے عادات کو بھول گئے؟ ماه مبارک رمضان میں کبھی مسجد جامع کی تراویح ناغہ ہوئی ہے۔ میں اس مہینے میں رام پور کیوں کر رہتا؟ نواب صاحب مانع رہے اور بہت منع کرتے رہے۔ برسات کے آموں کا لالچ دیتے رہے۔ مگر بھائی، میں ایسے انداز سے چلا کہ چاند
بنام نواب انور الدوله شفق (۲)
پیرو مرشد! کورنش۔ مزاج اقدس؟ الحمد للہ تو اچھا ہے؟ حضرت دعا کرتا ہوں ۔ پرسوں آپ کا خط مع سارتیفکٹ کے پہنچا۔ آپ کو مبداء فیاض سے ’’اشرف الوكلا ‘‘خطاب ملا،محنتانۂ محبتانه۔ ایک لطیفہ نشاط انگیز سُنیے ۔ ’’ڈاک کا ہرکارہ جو بلی ماروں کے محلے کے خطوط پہنچاتا
بنام منشی نبی بخش حقیر (۲)
بھائی صاحب! کیسی تاریخ اور کیسی نقل، کیا فرماتے ہو، پہلے مجھ سے حقیقت تو پوچھ لیا کرو۔ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ جو نظم و نثر تمہاری نظر سے نہ گزرے وہ ضائع ہے، وائے بر جان سخن گر ایں سخنداں نہ رسد اب سنیے ماجرا کیا ہے۔ جب ہمایوں کے حال تک پہنچا
بنام حکیم غلام نجف خاں (۲)
میاں! تم کو مبارک ہو کہ حکیم صاحب پر سے وہ سپاہی، جو اُن کے اُوپر متعین تھا اُٹھ گیا اور اُن کو حکم ہو گیا کہ اپنی وضع پر رہو مگر شہر میں رہو۔ باہر جانے کا اگر قصد کرو تو پوچھ کر جاؤ اور ہر ہفتے میں ایک بار کچہری میں حاضر ہوا کرو۔ چناں چہ وہ کچے باغ
بنام حکیم غلام نجف خاں (۱)
بھائی! میرا دکھ سنو، ہر شخص کو غم موافق اس کی طبیعت کے ہوتا ہے۔ ایک تنہائی سے نفور ہے ایک کو تنہائی منظور ہے۔ تاہل (۱) میری موت ہے۔ میں کبھی اس گرفتاری سے خوش نہیں رہا۔ پٹیالے جانے میں ایک سبکی اور ذلت تھی۔ اگر چہ مجھ کو دولت میسر آجاتی لیکن اس تنہائی
بنام هرگوپال تفته
صاحب! تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے اور کیا واقع ہوا؟ وہ ایک جنم تھا کہ جس میں ہم تم با ہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے، دیوان جمع کئے، اس زمانے میں ایک بزرگ تھے کہ وہ و ہمارے تمہارے دوست دلی تھے اور
بنام میاں داد خاں سیاح (۱)
منشی صاحب، سعادت و اقبال نشان ، سیف الحق میاں داد خاں سیاح کو دعا ۔ صاحب وہم اور چیز ہے اور احتیاط اور چیز ہے۔ کار پردازان ڈاک میرے خطوط کے ٹکٹ کبھی نہ دبائیں گے اور میرے خطوط کبھی نہ تلف ہوں گے ۔ آدھ آنے کی جگہ دوست کا ایک آنہ کیوں کھوؤں؟ ’’گلشن‘‘،
بنام خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (۳)
مولانا! بندگی۔ آج صبح کے وقت شوق دیدار میں بے اختیار، نہ ریل، نہ ڈاک، تو سن (۱) ہمت پر سوار چل دیا ہوں جانتا ہوں کہ تم تک پہنچ جاؤں گا۔ مگر یہ نہیں جانتا کہ کہاں پہنچوں گا اور کب پہنچوں گا۔ اتنا بے خود ہوں کہ جب تک تم اطلاع نہ دو گے، میں نہ جانوں
بنام میر مہدی مجروح (۶)
میر مہدی! جیتے رہو، آفریں، صد ہزار آفریں۔ اردو عبارت لکھنے کا کیا اچھا ڈھنگ پیدا کیا ہے کہ مجھ کو رشک آنے لگا۔ سنو، دلی کے تمام مال و متاع و زر و گوہر کی لوٹ پنجاب احاطے میں گئی ہے یہ طرز عبارت خاص میری دولت تھی۔ سو، ایک ظالم پانی پت، انصاریوں کے
بنام چودھری عبد الغفور سرور (۲)
میرے مشفق! آپ کا خط آیا اور اس کے آنے نے تمہاری رنجش کا وسوسہ میرے دل سے مٹایا۔ ایک قاعدہ آپ کو بتاتا ہوں، اگر اس کو منظور کیجئے گا تو خطوط سے نہ پہنچنے کا احتمال اُٹھ جائے گا اور رجسٹری کا درد سر جاتا رہے گا۔ آدھ آنہ نہ سہی ایک آنہ سہی۔ آپ بھی خط بے
بنام منشی شیو نارائن آرام (۲)
برخوردار اقبال نشان منشی شیو نرائن کو بعد دعا کے معلوم ہو، تمہارے دو خط متواتر پہنچے۔ میرے بھی دو خط پس و پیش (۱) پہنچے ہوں گے۔ موافق اس تحریر کے عمل کیا ہوگا۔ دو جلدیں پر تکلف اور پانچ جلدیں بہ نسبت اُس سے کم تکلف مرزا حاتم علی صاحب کے عہدہ اہتمام میں
بنام منشی نبی بخش حقیر (۳)
صاحب! آپ کا عنایت نامہ مقام ہاترس سے پہنچا۔ بیگم کا، کول میں آجانا خوب ہوا۔ دیکھیے تم کب آتے ہو، خط کا نہ لکھنا فراموش کاری کی راہ سے نہیں ہے، یہ خیال کہ ابھی ہاترس سے نہ جاؤں، مانع تحریر رہا۔ نشی ہر گوپال صاحب کو ایک خط میں کچھ حال جے پور کا لکھا تھا،
بنام میر مہدی مجروح (۱۱)
جان غالب! تمہارا خط پہنچا۔ غزل اصلاح کے بعد پہنچتی ہے، ہر اک سے پوچھتا ہوں وہ کہاں ہے، مصرع بدل دینے سے یہ شعر کسی رُتبے کا ہو گیا۔ اے میر مہدی تجھے شرم نہیں آتی۔ میاں، یہ اہل دہلی کی زباں ہے؟ ارے، اب اہل دہلی یا ہندو ہیں یا اہل حرفہ ہیں یا خاکی ہیں
بنام میر مہدی مجروح (۱۵)
واہ حضرت! کیا خط لکھوں؟ اس خرافات کے لکھنے کا فائدہ؟ بات اتنی ہی ہے کہ میرا پلنگ مجھ کو ملا، میرا بچھونا مجھ کو ملا، میر احجام مجھ کو ملا۔ میرا بیت الخلا مجھ کو ملا۔ رات کا وہ شور، کوئی آئیو، کوئی آئیو، فرو ہو گیا۔ میری جان بچی، میرے آدمیوں کی جان بچی،
بنام میاں داد خاں سیاح (۲)
منشی صاحب! یہ کیا اتفاق ہے کہ میری بات کوئی نہیں سمجھتا، کس زبان مرا نمی فهمد بہ عزیزاں چه التماس کنم یاد کرو اصل مقدمہ یہ تھا کہ میں ”قاطع برہان“ کو دوبارہ چھاپا چاہتا ہوں، نواب صاحب مدد دیں، یعنی سو دو سو جلد میں خرید لیں۔ حضرت نے ایک گھڑی عنایت
بنام منشی شیو نارائن آرام (۱ )
برخوردار نور چشم منشی شیو نارائن کو معلوم ہو کہ میں کیا جانتا تھا کہ تم کون ہو۔ جب یہ جانا کہ تم ناظر بنسی دھر کے پوتے ہو تو معلوم ہوا کہ میرے فرزند دلبند ہو ۔ اب تم کو مشفق و مکرم لکھوں تو گنہ گار۔ تم کو ہمارے خاندان اور اپنے خاندان کی آمیزش کا حال
بنام میر مہدی مجروح (۱)
صاحب! دو خط تمہارے بہ سبیل ڈاک آئے۔ کل دوپہر ڈھلے ایک صاحب اجنبی، سانولے سلونے، ڈاڑھی منڈے، بڑی بڑی آنکھوں والے تشریف لائے۔ تمہارا خط دیا، صرف اُن کی ملاقات کی تقریب میں تھا۔ بارے ان سے اسم شریف پوچھا گیا۔ فرمایا، ’’اشرف علی‘‘، قومیت کا استفسار ہوا۔
بنام نواب انور الدوله شفق (۳)
خداوند نعمت! شرف افزاء نامہ پہنچا۔ شاہ اسرار الحق کے نام کا مکتوب اُن کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ جناب شاہ صاحب سالک مجذوب یا مجذوب سالک ہیں۔ اگر جواب بھجوا دیں گے تو جناب میں ارسال کیا جائے گا۔ قصیدے کو بارہا دیکھا اور غور کی۔ جس طرز پر ہے اُس میں
بنام نواب انور الدوله شفق (۱)
پیر و مرشد! بارہ بجے تھے، میں ننگا اپنے پلنگ پر لیٹا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ آدمی نے آکر خط دیا: میں نے کھولا، پڑھا، بھلے انگر کھایا کرتا گلے میں نہ تھا۔ اگر ہوتا تو میں گریبان پھاڑ ڈالتا، حضرت کا کیا جاتا، میرا انقصان ہوتا۔ سرے سے سنیئے، آپ کا قصیدہ
بنام خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (۱)
قبله! کبھی آپ کو یہ بھی خیال آتا ہے کہ کوئی ہمارا دوست جو غالب کہلاتا ہے، وہ کیا کھاتا پیتا ہے اور کیوں کر جیتا ہے؟ پنسن قدیم اکیس مہینے سے بند اور میں سادہ دل فتوح جدید (۱)کا آرزومند اس پنسن کا احاطہ پنجاب کے حکام پر مدار ہے۔ سو ان کا یہ شیوہ اور یہ
بنام منشی شیو نارائن آرام (۴)
بھائی! حاشا ثم حاشا (۱)، اگر یہ غزل میری ہو: اسد اور لینے کے دینے پڑے اس غریب کو میں کچھ کیوں کہوں؟ لیکن اگر یہ غزل میری ہو تو مجھ پر ہزار لعنت، اس سے آگے ایک شخص نے یہ مطلع میرے سامنے پڑھا اور کہا کہ قبلہ آپ نے کیا خوب مطلع کہا ہے، اسد اس جفا
بنام منشی نبی بخش حقیر (۱)
لو بھائی، اب تو بی زکیہ ہمارے تمہارے برابر ہو گئیں۔ آخر ہم تم بھی تو اس عمر میں سورہ مبارکہ الم نشرح پڑھتے ہوں گے۔ اِنْشَاءَ الله تَعَالى عم يتساء لون کا سیپارہ تمام نہ ہوگا کہ میں آن کر اُن کا سبق سنوں گا۔ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير . مسہل
بنام نواب انور الدوله شفق (۴)
پیر و مر شد! آداب تتمهٔ غلط نامہ ’’قاطع برہان‘‘ کو بھیجے ہوئے تین دن اور آپ کی خیر و عافیت مولوی حافظ عزیز الدین کی زبانی سنے ہوئے دو دن ہوئے تھے کہ کل آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ ’’قاطع برہان‘‘ کے پہنچنے سے اطلاع پائی۔ معتقدان ’’برہان قاطع‘‘ برچھیاں
بنام میر مہدی مجروح (۱۳)
سید صاحب! کل پہر دن رہے تمہارا خط پہنچا۔ یقین ہے کہ اس وقت یا شام کو میر سرفراز حسین تمہارے پاس پہنچ گئے ہوں۔ حال سفر کا جو کچھ ہے ان کی زبانی سن لو گے۔ میں کیا لکھوں، میں نے بھی جو کچھ سنا ہے انہی سے سنا ہے۔ ان کا اس طرح ناکام پھر آنا میری تمنا اور
بنام میر مہدی مجروح (۹)
بھائی! کیا پوچھتے ہو؟ کیا لکھوں؟ ولی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر تھی قلعہ، چاندنی چوک، ہر روزه بازار مسجد جامع کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھول والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں۔ پھر کہو دلی کہاں؟ ہاں کوئی شہر قلمرو ہند میں اس نام کا
بنام منشی نبی بخش حقیر (۷)
یا الہی! کس کس پر رشک کروں۔ مال و دولت، جاہ و شوکت پر تو میں کسی کا بھی حاسد نہیں ہوا۔ شیخ وزیر الدین پر اور مرزا حسن علی بیگ رسالہ دار پر حسد کیوں کر نہ کروں کہ میرے بھائی کو دیکھتے ہوئے اور اُن سے باتیں کرتے ہوئے آئے ہیں۔ مقصود اس نگارش سے یہ ہے کہ
بنام منشی نبی بخش حقیر (۵)
بھائی صاحب! میں بھی تمہارا ہمدرد ہو گیا۔ یعنی منگل کے دن اٹھارہ ربیع الاول کو شام کے وقت وہ پھو پھی، کہ میں نے بچپن سے آج تک اُس کو ماں سمجھا تھا اور وہ بھی مجھ کو بیٹا سجھتی تھی، مرگئی۔ آپ کو معلوم رہے کہ پرسوں میرے گویا نو آدمی مرے۔ تین پھوپھیاں اور
بنام میر مہدی مجروح (۱۲)
میاں! کس حال میں ہو؟ کس خیال میں ہو؟ کل شام کو میرن صاحب روانہ ہوئے۔ یہاں ان کی سسرال میں قصے کیا کیا نہ ہوئے۔ ساس اور سالیوں نے اور بی بی نے آنسوؤں کے دریا بہا دیئے۔ خوش دامن صاحب بلائیں لیتی ہیں۔ سالیاں کھڑی ہوئی دعائیں دیتی ہیں۔ بی بی مانند صورت
بنام میاں داد خاں سیاح (۳)
منشی صاحب! سعادت و اقبال نشاں، سیف الحق، منشی میاں داد خاں، سیاح کو غالب ناتواں نیم جاں کی دعا پہنچے۔ بھائی! میرا حال اس سے جانو کہ اب میں خط نہیں لکھ سکتا۔ آگے لیٹے لیٹے لکھتا تھا۔ اب رعشہ وضعف بصارت کے سبب سے وہ بھی نہیں ہو سکتا۔ جب حال یہ ہے تو کہو،
بنام میر مہدی مجروح (۱۴)
سید صاحب! اچھا ڈھکوسلا نکالا ہے، بعد القاب کے شکوہ شروع کر دینا اور میرن صاحب کو اپنا ہم زبان کر لینا۔ میں میر مہدی نہیں کہ میرن صاحب پر مرتا ہوں۔ میر سرفراز حسین نہیں کہ ان کو پیار کرتا ہوں علی کا غلام اور سادات کا معتقد ہوں، اس میں تم بھی آگئے۔ کمال
بنام میر مہدی مجروح (۴)
سید صاحب! نہ تم مجرم نہ میں گنہگار۔ تم مجبور، میں ناچار۔ نواب کہانی سنو، میری سرگذشت میری زبانی سنو۔ نواب مصطفیٰ خاں بہ معیاد سات برس کے قید ہو گئے تھے، سو ان کی تقصیر معاف ہوئی اور ان کو رہائی ملی۔ صرف رہائی کا حکم آیا ہے۔ جہاں گیر آباد کی زمین داری
بنام منشی نبی بخش حقیر (۶)
بھائی صاحب! کیا کہوں کہ کتنا ہنسا ہوں تمہاری اس بات پر کہ ’’تو تو قطعہ یار باعی کہہ کر الگ ہو گیا اور مجھ کو تیس روزے رکھنے پڑئے۔‘‘ گویا الگ الگ مجھ پر اور تم پر روزے فرض نہ تھے بلکہ ایک کام بہ شراکت مجھ کو اور تم کو سپرد ہوا تھا، اس میں، میں نے تو
بنام چودھری عبد الغفور سرور (۱)
میرے شفیق ولی کو میر اسلام پہنچے۔ کل ، ”انشا“ کا پارسل پہنچا اور آج خط ”انشا“کا نام”بہارستان“اور اب آپ کا تخلص سرور ”بہارستان“مضاف اور ”سرور “مضاف الیہ ”بہارستان سرور“اچھا نام ہے۔ قطعے کا وعدہ نہیں کرتا۔ کس واسطے کہ اگر بے وعدہ پہنچ جائے گا تو لطف
بنام میر مہدی مجروح (۵)
میاں! کیوں تعجب کرتے ہو یوسف مرزا کے خطوط کے نہ آنے سے؟ وہاں اچھی طرح ہے۔ حاکموں کے ہاں آنا جانا، نوکری کی تلاش حسین مرزا صاحب بھی وہیں ہیں۔ وہاں کے حکام سے ملتے ہیں۔ وہاں پنسن کی درخواست کر رہے ہیں۔ ان دونوں صاحبوں کے ہر ہفتے میں ایک دو خط مجھ کو
بنام مولوی کرامت علی
فقیر اسد اللہ جناب مخدومی مولوی کرامت علی صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ آپ کی تحریر کے دیکھنے سے یاد آیا کہ آپ میرے ہاں آئے ہیں اور میں نے آپ کی ملاقات سے حظ اٹھایا ہے۔ حل معنی اشعار کی یہ صورت ہے کہ ہندی کے شعر میرے نہیں۔ شعرائے لکھنو میں سے کسی کے
بنام منشی شیو نارائن آرام (۵)
برخورد دار منشی شیو نرائن کو دعا کے بعد معلوم ہو، تصویر پہنچی تحریر پہنچی، سنو میری عمر ستر برس کی ہے اور تمہارا دادا میرا ہم عمر اور ہم باز تھا اور میں نے اپنے نانا صاحب خواجہ غلام حسین مرحوم سے سنا کہ تمہارے پردادا کو اپنا دوست بتاتے تھے اور فرماتے
بنام منشی نبی بخش حقیر (۴)
بھائی صاحب کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کا ہاترس سے کول آ جانا ہم کو معلوم ہو گیا تھا۔ ہمارا ایک وقائع نگار اُس ضلع میں رہتا ہے حق تعالیٰ اس کو جیتا رکھے۔ گرمی کا حال کیا پوچھتے ہو، اس ساٹھ برس میں یہ لو اور یہ دھوپ اور یہ تپش نہیں دیکھی۔ چھٹی ساتویں رمضان
بنام خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (۲)
حضور! پہلے خدا کا شکر، پھر آپ کا شکر بجالاتا ہوں کہ آپ نے خط لکھا اور میرا حال پوچھا یہ پرسش حکم نشتر کا رکھتی ہے۔ اب رگ قلم کی خونا به فشانی دیکھو۔ گورنر اعظم نے میرٹھ میں دربار کا حکم دیا۔ صاحب کمشنر بہادر دہلی نے سات جاگیرداروں میں سے جو تین بقیۃ
بنام عزیز الدین
صاحب! کیسی صاحبزادوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ دلی کو ویسا ہی آباد جانتے ہو جیسے آگے تھی ؟ قاسم جان کی گلی، میر خیراتی کے پھاٹک سے فتح اللہ بیگ خاں کے پھاٹک تک بے چراغ ہے۔ ہاں اگر آبادی ہے تو یہ ہے کہ غلام حسین خاں کی حویلی ہسپتال ہے اور ضیاء الدین خاں
بنام مرزا حاتم علی مہر (۱)
بہت سہی غم گیتی، شراب کم کیا ہے غلام ساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے سخن میں خامۂ غالب کی آتش افشانی یقیں ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے علاقہ محبت از لی کو برحق مان کر اور پیوند غلامی جناب مرتضی علی کو سچ جان کر ایک بات اور کہتا ہوں
بنام خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (۴)
قبله، میں نہیں جانتا کہ ان روزوں میں بقول ہندی اختر شناسوں کے کون سی کھوئی گرہ آئی ہوئی ہے کہ ہر طرف سے رنج و زحمت کا ہجوم ہے۔ مولوی صاحب سے میری ایک ملاقات ہوئی۔ جب وہ دلی آئے تھے اور میر خراتی کے گھر اترے ہوئے تھے۔ شرفاء میں تعارف بنائے محبت و مودت