تمام
تعارف
غزل116
نظم433
شعر134
ای-کتاب1340
ٹاپ ٢٠ شاعری 21
تصویری شاعری 22
اقوال10
آڈیو 58
ویڈیو 119
قطعہ10
رباعی12
قصہ13
گیلری 10
بلاگ2
دیگر
علامہ اقبال کے قصے
اقبال کی داڑھی اور مولانا کا ہاتھ
علامہ اقبال تمام عمر اسلام کی شان اور مسلمانوں کے بارے میں شاعری کرتے رہے لیکن اسلامی رواج کے مطابق داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ ایک مولانا اپنے ایک مقدمے میں مشورے کے لیے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔ وہ اپنی بہن کو جائیداد کے حصے سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ علامہ
روغن فاسفورس کا احسان
خواجہ حسن نظامی نے ایک مرتبہ اپنے اخبار ’’منادی‘‘ میں لکھا کہ میں ڈاکٹر اقبال کو ہندوستان کا عظیم شاعر نہیں سمجھتا۔ انہیں دنوں ڈاکٹر اقبال کے گھٹنوں میں درد ہوگیا خواجہ صاحب نے انہیں اپنا روغن فاسفورس بھیجا جس سے انہیں افاقہ ہوگیا۔ انہوں نے خواجہ صاحب
ناگہانی صدمہ
جون1907ء میں ایک معزز خاتون لیڈی نے ایک پارٹی دی۔ جس میں اقبال بھی مدعو تھے۔ دفعتاً مس سروجنی نائیڈو نہایت پر تکلف لباس اور جھلملاتے ہوئے زیورات پہنے ہوئے جھم جھم کرتی سامنے آن موجود ہوئیں اور آتے ہی اقبال کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، ’’میں تو صرف
طوائف سے رشتہ
اخبار ’’وطن‘‘ کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں علامہ کے ہاں اکثر حاضر ہوتے تھے۔ ان دنوں علامہ انار کلی بازار میں رہتے تھے اور وہیں طوائفیں آباد تھیں۔ میونسپل کمیٹی نے ان کے لئے دوسری جگہ تجویز کی۔ چنانچہ انہیں وہاں سے اٹھا دیا گیا۔ اس زمانے میں مولوی انشاء
انوکھی تصنیف
علامہ اقبال کو حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ ان کے استاد مولانا میر حسن کو بھی ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے۔ حکام نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی کوئی تصنیف نہیں، انہیں کیسے خطاب دیا جاسکتا ہے! علامہ
اے چودھری صاحب! آج آپ ننگے ہی چلے آئے
پنجاب کے مشہور قانون داں چودھری شہاب الدین علامہ کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ ان کا رنگ کالا اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھا۔ ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ میں آئےتو اقبال نے انہیں سرتاپا سیاہ دیکھ کر کہا، ’’اے چودھری صاحب! آج
چودھری صاحب کا صابن!
علامہ اقبالؔ چودھری شہاب الدین سے ہمیشہ مذاق کرتے تھے۔ چودھری صاحب بہت کالے تھے۔ ایک دن علامہ چودھری صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے۔ بتایا گیا کہ چودھری جی غسل خانے میں ہیں۔ اقبال کچھ دیر انتظار میں بیٹھے رہے۔ جب چودھری صاحب باہر آئے تو اقبالؔ نے کہا، ’’پہلے
اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے
علامہ اقبال بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت واقع ہوئے تھے۔ ایک روز (جب ان کی عمر گیارہ سال کی تھی) انہیں اسکول پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا، ’’اقبال تم دیر سے آئے ہو۔‘‘ اقبال نے بے ساختہ جواب دیا، ’’جی ہاں! اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا
موٹر میں کتے
فقیر سید وحیدالدین کے ایک عزیز کو کتے پالنے کا بے حد شوق تھا۔ ایک روز وہ لوگ کتوں کے ہمراہ علامہ سے ملنے چلے آئے یہ لوگ اتر اتر کر اندر جا بیٹھے اور کتے موٹر ہی میں رہے۔ اتنے میں علامہ کی ننھی بچی منیرہ بھاگتی ہوئی آئی اور باپ سے کہنے لگی، ’’ابا ابا
قوال کا وجد
خلافت تحریک کے زمانے میں مولانا محمد علی، اقبال کے پاس آئے اور لعنت ملامت کرتے ہوئے بولے، ’’ظالم تم نے لوگوں کو گرما کر ان کی زندگی میں ہیجان برپا کردیا ہے۔ خود کسی کا م میں حصہ نہیں لیتے۔‘‘ اس پر اقبال نے جواب دیا تم بالکل بے سمجھ ہو۔ تمہیں معلوم ہونا
حماقت کا اعتراف
ایک دفعہ علامہ سے سوال کیا گیا کہ عقل کی انتہا کیا ہے۔ جواب دیا، ’’حیرت‘‘ پھر سوال ہوا، ’’عشق کی انتہا کیا ہے۔‘‘ فرمایا، ’’عشق کی کوئی انتہا نہیں ہے۔‘‘ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا، ’’تو آپ نے یہ کیسے لکھا۔ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔‘‘ علامہ نے مسکرا