تری پراری کے اشعار
ایک کردار نیا روز جیا کرتا ہوں
مجھ کو شاعر نہ کہو ایک اداکار ہوں میں
جن سے ملنا نہ ہوا ان سے بچھڑ کر روئے
ہم تو آنکھوں کی ہر اک حد سے گزر کر روئے
میں اپنے درمیاں سے ہٹ چکا ہوں
تو پھر کیا درمیاں رکھا ہوا ہے
جب سے گزرا ہے کسی حسن کے بازار سے دل
دل کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بازار ہوں میں
اے ہوا تو ہی اسے عید مبارک کہیو
اور کہیو کہ کوئی یاد کیا کرتا ہے
تم جسے چاند کہتے ہو وہ اصل میں
آسماں کے بدن پر کوئی گھاؤ ہے
میں ترے جسم کے جب پار نکل جاؤں گا
وصل کی رات بڑی غور طلب ہوگی وہ
تم مرے پاس نہ آؤ کہ یہی بہتر ہے
پاس آنے سے تو پہچان بھی جا سکتی ہے
کسی پر بھی یقیں کر لیتے ہو تم
تمہارے ساتھ کیا دھوکہ ہوا ہے
جسے تم ڈھونڈتی رہتی ہو مجھ میں
وہ لڑکا جانے کب کا مر چکا ہے
عمر بھر لڑتا رہا ہوں اس سے
وہ جو اک شخص کبھی تھا ہی نہیں
میں حاصل ہو چکا ہوں جس بدن کو
اسی سے پوچھتا ہوں کیا ملا ہے
قتل کرنا ہے نئے خواب کا سو ڈرتا ہوں
کانپ جائیں نہ مرے ہاتھ یہ خوں کرتے ہوئے
ایک تصویر بنائی ہے خیالوں نے ابھی
اور تصویر سے اک شخص نکل آیا ہے
کتنی دل کش ہیں یہ بارش کی پھواریں لیکن
ایسی بارش میں مری جان بھی جا سکتی ہے
شعر پڑھتے ہوئے یہ تم نے کبھی سوچا ہے
شعر کہتے ہوئے میں کتنی دفع مرتا ہوں
پیاس ایسی تھی کہ میں سارا سمندر پی گیا
پر مرے ہونٹوں کے یہ دونوں کنارے جل گئے
کئی لاشیں ہیں مجھ میں دفن یعنی
میں قبرستان ہوں شروعات ہی سے
محبت میں شکایت کر رہا ہوں
شکایت میں محبت کر رہا ہوں
-
موضوع : لفظی الٹ پھیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ