- کتاب فہرست 180758
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1643
طب539 تحریکات257 ناول3422 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1328
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت85
- غزل744
- ہائیکو11
- حمد31
- مزاحیہ38
- انتخاب1383
- کہہ مکرنی7
- کلیات630
- ماہیہ16
- مجموعہ3988
- مرثیہ328
- مثنوی678
- مسدس44
- نعت423
- نظم1001
- دیگر42
- پہیلی14
- قصیدہ140
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی255
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
مشتاق احمد یوسفی کے اقوال
غصہ جتنا کم ہوگا اس کی جگہ اداسی لیتی جائے گی۔
لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری طرف سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔
غالب دنیا میں واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتا ہے۔
مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہوگی۔
مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا ختم کیسے کرے۔
عورتیں پیدائشی محنتی ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ صرف ۱۲ فیصد خواتین خوبصورت پیدا ہوتی ہیں، باقی اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کرتی ہیں۔
داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے۔ دل اور جوانی۔
ہر دکھ، ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا ایک راز کھول دیتی ہے۔
مسلمان ہمیشہ ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔
انسان وہ واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔
جوان لڑکی کی ایڑی میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ چلتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
آسان، ایکسلنٹ، رکمنڈیڈ
عورت، مرد، مزاحیہ کوٹ
مرد عشق و عاشقی صرف ایک مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری عیاشی۔
جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔
پرائیوٹ اسپتال اور کلینک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ موحوم کی جائداد، جمع جتھا اور بینک بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان میں خون خرابا نہیں ہوتا کیونکہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آجاتے ہیں۔
گھوڑے اور عورت کی ذات کا اندازہ اس کی لات اور بات سے کیا جاتا ہے۔
گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو صرف اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔
آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں۔
جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگیں تو سمجھ لو کہ شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور ہے۔
مرد کی پسند وہ پل صراط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔
سچ بول کر ذلیل خوار ہونے کی بہ نسبت جھوٹ بول کر ذلیل و خوار ہونا بہتر ہے۔ آدمی کو کم از کم صبر تو آجاتا ہے کہ کس بات کی سزا مل رہی ہے۔
ہماری گائکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔
میرا عقیدہ ہے کہ جو قوم اپنے آپ پر جی کھول کر ہنس سکتی ہے وہ کبھی غلام نہیں ہو سکتی۔
بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔
اچھے استاد کے اندر ایک بچہ بیٹھا ہوتا ہے جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور سر ہلا ہلا کر بتاتا جاتا کہ بات سمجھ میں آئی کہ نہیں۔
انسان کا کوئی کام بگڑ جائے تو ناکامی سے اتنی کوفت نہیں ہوتی جتنی ان بن مانگے مشوروں اور نصیحتوں سے ہوتی ہے جن سے ہر وہ شخص نوازتا ہے جس نے کبھی اس کام کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔
عورت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی۔
شریف گھرانوں میں آئی ہوئی دلہن اور جانور تو مر کر ہی نکلتے ہیں۔
اس زمانہ میں سو فیصد سچ بول کر زندگی کرنا ایسا ہی ہے جیسے بجری ملائے بغیر صرف سیمنٹ سے مکان بنانا۔
مڈل کلاس غریبی کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو لیکن اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔
مسلمان لڑکے حساب میں فیل ہونے کو اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتے ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں رہتا اس کی زندگی میں شاید کبھی کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن جو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا وہ یقینا لوفر رہا ہوگا۔
جتنا وقت اور روپیہ بچوں کو ’’مسلمانوں کے سائنس پر احسانات‘‘ رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی بچوں کو سائنس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوگا۔
گانے والی صورت اچھی ہو تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔
داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے، دل اور جوانی۔
بے سبب دشمنی اور بدصورت عورت سے عشق حقیقت میں دشمنی اور عشق کی سب سے نخالص قسم ہے۔ یہ شروع ہی وہاں سے ہوتے ہیں جہاں عقل ختم ہو جاوے ہے۔
آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔
شیر، ہوائی جہاز، گولی، ٹرک اور پٹھان ریورس گئیر میں چل ہی نہیں سکتے۔
جس آسمان پر کبوتر، شفق، پتنگ اور ستارے نہ ہوں ایسے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔
جو شخص کتے سے بھی نہ ڈرے اس کی ولدیت میں شبہ ہے۔
پہاڑ اور ادھیڑ عورت در اصل آئل پینٹنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں زرا فاصلے سے دیکھنا چاہیے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1643
-