ناطق گلاوٹھی کے اشعار
کشتی ہے گھاٹ پر تو چلے کیوں نہ دور آج
کل بس چلے چلے نہ چلے چل اٹھا تو لا
صبح پیری میں پھرا شام جوانی کا گیا
دل ہے وہ صبح کا بھٹکا جو سر شام ملا
دھوم کر رکھی تھی کل رندوں نے بزم وعظ میں
پگڑی غائب تھی جناب شیخ کی گل تھا چراغ
ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم
جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے
ہم ہیں تو نہ رکھیں گے اتنا تجھے افسردہ
چل نغمۂ ناطقؔ سن صحرائے جنوں نے لا
ڈھونڈ تو بت بھی یہیں مل جائیں گے مرد خدا
ہم نے دیکھا ہے حرم ہی میں کہیں بت خانہ تھا
گھر بنانے کی بڑی فکر ہے دنیا میں ہمیں
صاحب خانہ بنے جاتے ہیں مہماں ہو کر
میرے سینہ میں نہیں ہے تو یہ سمجھو کہ نہ تھا
پوچھتے کیا ہو جو ہوتا تو یہیں دل ہوتا
یہ خدا کی شان تو دیکھیے کہ خدا کا نام ہی رہ گیا
مجھے تازہ یاد بتاں ہوئی جو حرم سے شور اذاں اٹھا
ہنس کے نہیں تو رو کے بھی عمر گزر ہی جائے گی
آج سے خیر یوں سہی مجھ کو خیال تھا کہ یوں
پہلی باتیں ہیں نہ پہلے کی ملاقاتیں ہیں
اب دنوں میں وہ رہا لطف نہ راتوں میں رہا
سب کو یہ شکایت ہے کہ ہنستا نہیں ناطقؔ
ہم کو یہ تعجب کہ وہ گریاں نہیں ہوتا
اے بادہ کش گئی ہے مئے عیش کس کے ساتھ
ہر اک نے لے کے جام کو آگے بڑھا دیا
دوستی کس کی رہی یاد وہ کس پر بھولا
دوسرا بیچ میں کون آ کے مرا میرے بعد
پہنچائے گا نہیں تو ٹھکانے لگائے گا
اب اس گلی میں غیر کو رہبر بنائیں گے
ہمیں جو یاد ہے ہم تو اسی سے کام لیتے ہیں
کسی کا نام لینا ہو اسی کا نام لیتے ہیں
غل شور کہاں کا ہے سن تو سہی او ظالم
کیا ہے ترے کوچہ میں کیسا ہے یہ واویلا
آخر کو راہبر نے ٹھکانے لگا دیا
خود اپنی راہ لی مجھے رستہ بتا دیا
ہم تو مسجد سے بھی مایوس ہی آئے ناطقؔ
کوئی اللہ کا بندہ تو مسلماں ہوتا
چال اور ہے دنیا کی ہمارا ہے چلن اور
وہ ساخت ہے کچھ اور یہ بے ساختہ پن اور
شیخ جزائے کار خیر جو بتا رہا ہے آج
بات تو خوب ہے مگر آدمی معتبر نہیں
اسے پا بہ گل نہ رکھتا جو خیال تیرہ بختی
جسے ذرہ کہہ رہے ہو یہی اک شرار ہوتا
کھو دیا شہرت نے اپنی شعر خوانی کا مزا
داد مل جاتی ہے ناطقؔ ہر رطب یابس کے بعد
تو ہمیں کہتا ہے دیوانہ کو دیوانے سہی
پند گو آخر تجھے اب کیا کہیں دیوانہ ہم
وفا پر ناز ہم کو ان کو اپنی بے وفائی پر
کوئی منہ آئنہ میں دیکھتا ہے کوئی پانی میں
سب کچھ مجھے مشکل ہے نہ پوچھو مری مشکل
آسان بھی ہو کام تو آساں نہیں ہوتا
گزرتی ہے مزے سے واعظوں کی زندگی اب تو
سہارا ہو گیا ہے دین دنیا دار لوگوں کا
اے شب ہجراں زیادہ پاؤں پھیلاتی ہے کیوں
بھر گیا جتنا ہماری عمر کا پیمانہ تھا
تمہاری بات کا اتنا ہے اعتبار ہمیں
کہ ایک بات نہیں اعتبار کے قابل
ہمارے عیب میں جس سے مدد ملے ہم کو
ہمیں ہے آج کل ایسے کسی ہنر کی تلاش
اے جنوں باعث بد حالیٔ صحرا کیا ہے
یہ مرا گھر تو نہیں تھا کہ جو ویراں ہوتا
کیا کروں اے دل مایوس ذرا یہ تو بتا
کیا کیا کرتے ہیں صدموں سے ہراساں ہو کر
اے نگاہ مست اس کا نام ہے کیف سرور
آج تو نے دیکھ کر میری طرف دیکھا مجھے
مل گئے تم ہاتھ اٹھا کر مجھ کو سب کچھ مل گیا
آج تو گھر لوٹ لائی ہے دعا تاثیر کی
طریق دلبری کافی نہیں ہر دل عزیزی کو
سلیقہ بندہ پرور چاہئے بندہ نوازی کا
پابند دیر ہو کے بھی بھولے نہیں ہیں گھر
مسجد میں جا نکلتے ہیں چوری چھپی سے ہم
وہاں سے لے گئی ناکام بدبختوں کو خودکامی
جہاں چشم کرم سے خودبخود کچھ کام ہونا تھا
اب میں کیا تم سے اپنا حال کہوں
بخدا یاد بھی نہیں مجھ کو
رہ نوردان وفا منزل پہ پہنچے اس طرح
راہ میں ہر نقش پا میرا بناتا تھا چراغ
ہم پاؤں بھی پڑتے ہیں تو اللہ رے نخوت
ہوتا ہے یہ ارشاد کہ پڑتے ہیں گلے آپ
کیفیت تضاد اگر ہو نہ بیان شعر میں
ناطقؔ اسی پہ روئے کیوں چنگ نواز گائے کیوں
کیجیے کار خیر میں حاجت استخارہ کیا
کیجیے شغل مے کشی اس میں کسی کی رائے کیوں
عمر بھر کا ساتھ مٹی میں ملا
ہم چلے اے جسم بے جاں الودع
ہاں جان تو دیں گے مگر اے موت ابھی دم لے
ایسا نہ کہیں وہ کہ ہم آئے تو چلے آپ
کون اس رنگ سے جامہ سے ہوا تھا باہر
کس سے سیکھا تری تلوار نے عریاں ہونا
جرأت افزائے سوال اے زہے انداز جواب
آتی جاتی ہے اب اس بت کی نہیں ہاں کے قریب
ناز ادھر دل کو اڑا لینے کی گھاتوں میں رہا
میں ادھر چشم سخن گو تری باتوں میں رہا
کھائیے یہ زہر کب تک کھائے جاتی ہے یہ زیست
اے اجل کب تک رہیں گے رہن آب و دانہ ہم
ہاں یہ تو بتا اے دل محروم تمنا
اب بھی کوئی ہوتا ہے کہ ارماں نہیں ہوتا