آنند نرائن ملا کے اشعار
رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں
اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
نظام مے کدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے
ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے
اب اور اس کے سوا چاہتے ہو کیا ملاؔ
یہ کم ہے اس نے تمہیں مسکرا کے دیکھ لیا
ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے
کوئی کمی ہمیں میں تھی یاد تمہیں نہ آ سکے
عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
جس کے خیال میں ہوں گم اس کو بھی کچھ خیال ہے
میرے لیے یہی سوال سب سے بڑا سوال ہے
نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو
قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھے کر کے چپ کوئی کہتا ہے ہنس کر
انہیں بات کرنے کی عادت نہیں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب
بے گناہی گناہ ہے پیارے
-
موضوع : گناہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن
جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے
میں فقط انسان ہوں ہندو مسلماں کچھ نہیں
میرے دل کے درد میں تفریق ایماں کچھ نہیں
کہنے کو لفظ دو ہیں امید اور حسرت
ان میں نہاں مگر اک دنیا کی داستاں ہے
تم جس کو سمجھتے ہو کہ ہے حسن تمہارا
مجھ کو تو وہ اپنی ہی محبت نظر آئی
آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا
کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا
اس اک نظر کے بزم میں قصے بنے ہزار
اتنا سمجھ سکا جسے جتنا شعور تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غم حیات شریک غم محبت ہے
ملا دئے ہیں کچھ آنسو مری شراب کے ساتھ
حسن کے جلوے نہیں محتاج چشم آرزو
شمع جلتی ہے اجازت لے کے پروانے سے کیا
ایک اک لمحہ میں جب صدیوں کی صدیاں کٹ گئیں
ایسی کچھ راتیں بھی گزری ہیں مری تیرے بغیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل بے تاب کا انداز بیاں ہے ورنہ
شکر میں کون سی شے ہے جو شکایت میں نہیں
اب بن کے فلک زاد دکھاتے ہیں ہمیں آنکھ
ذرے وہی کل جن کو اچھالا تھا ہمیں نے
خون جگر کے قطرے اور اشک بن کے ٹپکیں
کس کام کے لیے تھے کس کام آ رہے ہیں
تری جفا کو جفا میں تو کہہ نہیں سکتا
ستم ستم ہی نہیں ہے جو دل کو راس آئے
عقل کے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھلاتے ہوئے
ہم نے کاٹی زندگی دیوانہ کہلاتے ہوئے
دیار عشق ہے یہ ظرف دل کی جانچ ہوتی ہے
یہاں پوشاک سے اندازہ انساں کا نہیں ہوتا
تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر
دل کے آئینہ میں بال آ ہی گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خدا جانے دعا تھی یا شکایت لب پہ بسمل کے
نظر سوئے فلک تھی ہاتھ میں دامان قاتل تھا
محبت فرق کھو دیتی ہے اعلیٰ اور ادنیٰ کا
رخ خورشید میں ذرہ کی ہم تنویر دیکھیں گے
نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مختصر اپنی حدیث زیست یہ ہے عشق میں
پہلے تھوڑا سا ہنسے پھر عمر بھر رویا کیے
گلے لگا کے کیا نذر شعلۂ آتش
قفس سے چھوٹ کے پھر آشیاں ملے نہ ملے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شمع اک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہ تھی
آگ جب تن میں لگائی ہے تو جان آئی ہے
اشک غم الفت میں اک راز نہانی ہے
پی جاؤ تو امرت ہے بہہ جائے تو پانی ہے
فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر اک صورت پہ دھوکا کھا رہی ہیں تیری صورت کا
ابھی آتا نہیں نظروں کو تاحد نظر جانا