Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anand Narayan Mulla's Photo'

آنند نرائن ملا

1901 - 1997 | الہٰ آباد, انڈیا

الہ آباد ہائی کورٹ کے جج تھے۔ لوک سبھا کے رکن بھی رہے

الہ آباد ہائی کورٹ کے جج تھے۔ لوک سبھا کے رکن بھی رہے

آنند نرائن ملا کے اشعار

7.9K
Favorite

باعتبار

رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں

اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے

وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے

نظام مے کدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے

ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے

اب اور اس کے سوا چاہتے ہو کیا ملاؔ

یہ کم ہے اس نے تمہیں مسکرا کے دیکھ لیا

ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے

کوئی کمی ہمیں میں تھی یاد تمہیں نہ آ سکے

عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر

یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ

ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ

اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

جس کے خیال میں ہوں گم اس کو بھی کچھ خیال ہے

میرے لیے یہی سوال سب سے بڑا سوال ہے

نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو

قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی

مجھے کر کے چپ کوئی کہتا ہے ہنس کر

انہیں بات کرنے کی عادت نہیں ہے

عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب

بے گناہی گناہ ہے پیارے

حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن

جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے

میں فقط انسان ہوں ہندو مسلماں کچھ نہیں

میرے دل کے درد میں تفریق ایماں کچھ نہیں

کہنے کو لفظ دو ہیں امید اور حسرت

ان میں نہاں مگر اک دنیا کی داستاں ہے

تم جس کو سمجھتے ہو کہ ہے حسن تمہارا

مجھ کو تو وہ اپنی ہی محبت نظر آئی

آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا

کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا

اس اک نظر کے بزم میں قصے بنے ہزار

اتنا سمجھ سکا جسے جتنا شعور تھا

غم حیات شریک غم محبت ہے

ملا دئے ہیں کچھ آنسو مری شراب کے ساتھ

حسن کے جلوے نہیں محتاج چشم آرزو

شمع جلتی ہے اجازت لے کے پروانے سے کیا

ایک اک لمحہ میں جب صدیوں کی صدیاں کٹ گئیں

ایسی کچھ راتیں بھی گزری ہیں مری تیرے بغیر

دل بے تاب کا انداز بیاں ہے ورنہ

شکر میں کون سی شے ہے جو شکایت میں نہیں

اب بن کے فلک زاد دکھاتے ہیں ہمیں آنکھ

ذرے وہی کل جن کو اچھالا تھا ہمیں نے

خون جگر کے قطرے اور اشک بن کے ٹپکیں

کس کام کے لیے تھے کس کام آ رہے ہیں

تری جفا کو جفا میں تو کہہ نہیں سکتا

ستم ستم ہی نہیں ہے جو دل کو راس آئے

عقل کے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھلاتے ہوئے

ہم نے کاٹی زندگی دیوانہ کہلاتے ہوئے

دیار عشق ہے یہ ظرف دل کی جانچ ہوتی ہے

یہاں پوشاک سے اندازہ انساں کا نہیں ہوتا

تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر

دل کے آئینہ میں بال آ ہی گیا

خدا جانے دعا تھی یا شکایت لب پہ بسمل کے

نظر سوئے فلک تھی ہاتھ میں دامان قاتل تھا

محبت فرق کھو دیتی ہے اعلیٰ اور ادنیٰ کا

رخ خورشید میں ذرہ کی ہم تنویر دیکھیں گے

نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے

تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا

مختصر اپنی حدیث زیست یہ ہے عشق میں

پہلے تھوڑا سا ہنسے پھر عمر بھر رویا کیے

گلے لگا کے کیا نذر شعلۂ آتش

قفس سے چھوٹ کے پھر آشیاں ملے نہ ملے

شمع اک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہ تھی

آگ جب تن میں لگائی ہے تو جان آئی ہے

اشک غم الفت میں اک راز نہانی ہے

پی جاؤ تو امرت ہے بہہ جائے تو پانی ہے

فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے

ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے

ہر اک صورت پہ دھوکا کھا رہی ہیں تیری صورت کا

ابھی آتا نہیں نظروں کو تاحد نظر جانا

Recitation

بولیے