گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
تشریح
اس شعر کا مزاج غزل کے رویتی مزاج سے ملتا ہے۔ چونکہ فیض نے ترقی پسند فکر کی ترجمانی میں بھی اردو شعریات کی روایت کا پورا لحاظ رکھا لہٰذا ان کی تخلیقات میں اگرچہ علامتی سطح پر ترقی پسند سوچ کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے تاہم ان کی شعری دنیا میں اور بھی امکانات موجود ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال یہ مشہور شعر ہے۔ بادِ نو بہار کے معنی نئی بہار کی ہواہے۔ پہلے اس شعر کی تشریح ترقی پسند فکر کو مدِ نظر کرتے ہیں۔ فیض کی شکایت یہ رہی ہے کہ انقلاب رونما ہونے کے باوجود استحصال کی چکی میں پسنے والوں کی تقدیر نہیں بدلتی ۔ اس شعر میں اگر بادِ نو بہار کو انقلاب کی علامت مان لیا جائے تو شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ گلشن (ملک، زمانہ وغیرہ) کا کاروبار تب تک نہیں چل سکتا جب تک کہ انقلاب اپنے صحیح معنوں میں نہیں آتا۔ اسی لئے وہ انقلاب یا بدلاؤ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ جب تم رونما ہوجاؤ گے تب پھولوں میں نئی بہار کی ہوا تازگی لائی گی۔ اور اس طرح سے چمن کا کاروبار چلے گا۔ دوسرے معنوں میں وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ تم اب آ بھی جاؤ تاکہ گلوں میں نئی بہار کی ہوا رنگ بھرے اور چمن کھل اٹھے۔
شفق سوپوری
- کتاب : Nuskha Hai Wafa (Pg. 264)
- کتاب : Nuskha Hai Wafa (Pg. 254)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.