Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ambar Bahraichi's Photo'

عنبر بہرائچی

1949 - 2021 | لکھنؤ, انڈیا

معروف سنسکرت عالم، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

معروف سنسکرت عالم، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

عنبر بہرائچی کے اشعار

919
Favorite

باعتبار

ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا

یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا

یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ

مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا

میرا کرب مری تنہائی کی زینت

میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں

باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ

گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا

جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی

ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا

جانے کیا برسا تھا رات چراغوں سے

بھور سمے سورج بھی پانی پانی ہے

چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں

اب جینے کے ڈھنگ بڑے ہی مہنگے ہیں

اک شفاف طبیعت والا صحرائی

شہر میں رہ کر کس درجہ چالاک ہوا

جان دینے کا ہنر ہر شخص کو آتا نہیں

سوہنی کے ہاتھ میں کچا گھڑا تھا دیکھتے

ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے

اشکوں سے ہر اک برگ کو بھرنا تھا ہمیں بھی

آم کے پیڑوں کے سارے پھل سنہرے ہو گئے

اس برس بھی راستہ کیوں رو رہا تھا دیکھتے

ایک سناٹا بچھا ہے اس جہاں میں ہر طرف

آسماں در آسماں در آسماں کیوں رت جگے ہیں

ہم پی بھی گئے اور سلامت بھی ہیں عنبرؔ

پانی کی ہر اک بوند میں ہیرے کی کنی تھی

روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے

ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا

ایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔ

جائے حیرت کہ سبھی اس کے اثر میں ہیں ابھی

اس نے ہرذرے کو طلسم آباد کیا

ہاتھ ہمارے لگی فقط حیرانی ہے

سوپ کے دانے کبوتر چک رہا تھا اور وہ

صحن کو مہکا رہی تھی سنتیں پڑھتے ہوئے

گئے تھے ہم بھی بحر کی تہوں میں جھومتے ہوئے

ہر ایک سیپ کے لبوں میں صرف ریگزار تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے