لوکیش ترپاٹھی کے اشعار
وہ ضد کرتی ہے لیکن پھر اچانک مان جاتی ہے
مرے چہرے کی رنگت سے وہ قیمت جان جاتی ہے
کمانے اور گنوانے میں بچا پایا ہوں بس اتنا
ہمارے گھر پرانے دوست دیکھو اب بھی آتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چیز کوئی نہیں دوسری چاہیئے
بات جس کی ہوئی تھی وہی چاہیئے
رہا تھا مل مرے چہرے پہ کالکھ
وہ شیشہ صاف تھوڑی کر رہا تھا
یہ شام ڈھل رہی تھی کہ آئی خبر بری
پانی کے انتظار میں اک جھیل مر گئی
ہم سبھی آکاش میں لٹکے ہوئے
سوچتے ہیں کہ زمیں پہ پاؤں ہے
ہم سے ہمارے خواب بھی جب دور ہو گئے
مجبور تب ہوئے یوں کہ مزدور ہو گئے
مرا ہی من نہیں لگتا ہے اس میں
کہ اس کا من بھی مجھ سے بھر گیا ہے
مر گئی ماں تو بٹ گئے زیور
بٹ گیا گھر پتا کے مرتے ہی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ