Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mah Laqa Chanda's Photo'

ماہ لقا چندا

1768 - 1824 | حیدر آباد, انڈیا

ایک کلاسیکی شاعرہ، میر تقیؔ میر اور مرزا سودا کی ہم عصر

ایک کلاسیکی شاعرہ، میر تقیؔ میر اور مرزا سودا کی ہم عصر

ماہ لقا چندا کے اشعار

1.5K
Favorite

باعتبار

بسنت آئی ہے موج رنگ گل ہے جوش صہبا ہے

خدا کے فضل سے عیش و طرب کی اب کمی کیا ہے

ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی

چاہتے ہیں جو بار بار شراب

کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں

بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے

گر مرے دل کو چرایا نہیں تو نے ظالم

کھول دے بند ہتھیلی کو دکھا ہاتھوں کو

گل کے ہونے کی توقع پہ جیے بیٹھی ہے

ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے

چنداؔ رہے پرتو سے ترے یا علی روشن

خورشید کو ہے در سے ترے شام و سحر فیض

ہم جو شب کو ناگہاں اس شوخ کے پالے پڑے

دل تو جاتا ہی رہا اب جان کے لالے پڑے

دریغ چشم کرم سے نہ رکھ کہ اے ظالم

کرے ہے دل کو مرے تیری یک نظر محظوظ

دل ہو گیا ہے غم سے ترے داغ دار خوب

پھولا ہے کیا ہی جوش سے یہ لالہ زار خوب

سنگ رہ ہوں ایک ٹھوکر کے لیے

تس پہ وہ دامن سنبھال آتا ہے آج

تیر و تلوار سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگہ

سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے

ناداں سے ایک عمر رہا مجھ کو ربط عشق

دانا سے اب پڑا ہے سروکار دیکھنا

گرچہ گل کی سیج ہو تس پر بھی اڑ جاتی ہے نیند

سر رکھوں قدموں پہ جب تیرے مجھے آتی ہے نیند

بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ

مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب

Recitation

بولیے