Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

محفوظ الرحمان عادل

محفوظ الرحمان عادل کے اشعار

3.6K
Favorite

باعتبار

وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو

حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں

سامنے ماں کے جو ہوتا ہوں تو اللہ اللہ

مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بچہ ہوں ابھی

مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر

کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا

میرا ظاہر دیکھنے والے مرا باطن بھی دیکھ

گھر کے باہر ہے اجالا گھر کے اندر کچھ نہیں

آپ نور افشاں ہیں رات کے اندھیرے میں

یا ستارے رقصاں ہیں رات کے اندھیرے میں

تمہاری مست آنکھوں کا تصور

مری توبہ سے ٹکرانے لگا ہے

زندگی کو حوصلہ دینے کے خاطر

خواہشوں کو ریزہ ریزہ چن رہا ہوں

دیکھ لینا ایک دن بے روزگاری کا عذاب

چھین کر چہروں کی ساری دل کشی لے جائے گا

وہ لالہ بدن جھیل میں اترا نہیں ورنہ

شعلے متواتر اسی پانی سے نکلتے

کیوں زمانہ ہی بدلتا ہے تجھے

تو زمانے کو بدلتا کیوں نہیں

جو تیری زلف کے سائے میں چند دن گزرے

وہ غم کی دھوپ میں یاد آئے سائباں کی طرح

ہمیشہ دھوپ کی چادر پہ تکیہ کون کرتا ہے

کھلی چھت ہے تو پھر برسات کا بھی سامنا ہوگا

اب سر عام جدا ہوتے ہیں سر شانوں سے

اب یہ منظر ہے تعجب کا نہ حیرانی کا

تری عقل گم تجھے کر نہ دے رہ زندگی میں سنبھل کے چل

تو گماں کی حد نہ تلاش کر کہ کہیں بھی حد گماں نہیں

مجھ کو شوق جستجوئے کائنات

خاک سے عادلؔ خلا تک لے گیا

ان سفینوں کی تباہی میں ہے عبرت کا سبق

جو کنارے تک پہنچ کر نذر طوفاں ہو گئے

ایک دن وہ ذروں کو آفتاب کر لیں گے

دھوپ کے جو خواہاں ہیں رات کے اندھیرے میں

جنتیں تو پیشواؤں نے ہی مل کر بانٹ لیں

ہم کو الجھایا گیا ہے دوزخوں کے درمیاں

اب تک اسی معمے میں الجھا ہوا ہوں میں

لائی ہے زندگی مجھے کیوں اس جہان تک

شاخ سے گر کر ہوا کے ساتھ ساتھ

کس طرف یہ زرد پتا جائے گا

اسی نے بخشا ہے مجھ کو شعور جینے کا

جو مشکلوں کی گھڑی بار بار آئی ہے

خود مرے آنسو چمک رکھتے ہیں گوہر کی طرح

میری چشم آرزو میں ماہ و اختر کچھ نہیں

آفتاب گرم سے دست و گریباں ہو گئے

دھوپ کی شدت سے سائے جب پریشاں ہو گئے

بے لباسی مری توقیر کا باعث ٹھہری

بول بالا ہے بہت شہر میں عریانی کا

شبنمی قطرے گل لالہ پہ تھے رقص کناں

برف کے ٹکڑے بھی دیکھے گئے انگاروں میں

ہوا کے رحم و کرم پر ہوں بے ٹھکانہ ہوں

شجر سے ٹوٹا ہوا ایک زرد پتا ہوں

اب اسے اپنی شباہت بھی گزرتی ہے گراں

گھر کے اندر کوئی شیشہ نہیں رہنے دیتا

وہ مری آوارہ گردی وہ مرا دیوانہ پن

وہ مری تعظیم میں دیوار و در کا جاگنا

بھولی بسری داستاں مجھ کو نہ سمجھو

میں نئی پہچان کا اک واسطہ ہوں

بات تو جب ہے فصل جنوں میں دیوانے تو دیوانے

اہل خرد بھی رقص کریں زنجیروں کی جھنکاروں پر

قیدی بنا کے رکھا ہے اس نے تمام عمر

مجھ کو حصار جاں سے نکلنے نہیں دیا

یہ بھی ہے مارا ہوا ساقی کی چشم ناز کا

اس لئے عادلؔ کو شیشے کی پری اچھی لگی

تمہارے بخشے ہوئے آنسوؤں کے قطروں سے

شب فراق میں تارے سجا رہا ہوں میں

پرت پرت ترا چہرہ سجا رہا ہوں میں

یہ اتفاق کہ ہیں گھر میں آئنے ٹوٹے

وہ جگا کر ہم کو سب خوش منظری لے جائے گا

خواب کیا ہے خواب کی تعبیر بھی لے جائے گا

میرے تلووں کے لہو سے ہوگی روشن ہر جہت

رہروان راہ منزل ہوں گے ششدر دیکھنا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے