مجید امجد کے اشعار
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
بڑے سلیقے سے دنیا نے میرے دل کو دیے
وہ گھاؤ جن میں تھا سچائیوں کا چرکا بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ ایک لمحہ جو یاروں کے درمیاں گزرے
میں ایک پل کے رنج فراواں میں کھو گیا
مرجھا گئے زمانے مرے انتظار میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
زندگی کی راحتیں ملتی نہیں ملتی نہیں
زندگی کا زہر پی کر جستجو میں گھومیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں چار سو ترا غم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے
-
موضوع : بندگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے ترا روپ
پلک جھکی تو مرے دل کے روبرو ترا غم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں بانہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے
پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
سپردگی میں بھی اک رمز خود نگہ داری
وہ میرے دل سے مرے واسطے نہیں گزرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
شاید اک بھولی تمنا مٹتے مٹتے جی اٹھے
اور بھی اس جلوہ زار رنگ و بو میں گھومیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے