منور خان غافل کے اشعار
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا غافلؔ
یاد آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی صاحب
یاد آئے گی تمہیں میری وفا میرے بعد
لیلۃ القدر ہے ہر شب اسے ہر روز ہے عید
جس نے مے خانہ میں ماہ رمضاں دیکھا ہے
ستانا قتل کرنا پھر جلانا
وہ بے تعلیم کیا کیا جانتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حق محنت ان غریبوں کا سمجھتے گر امیر
اپنے رہنے کا مکاں دے ڈالتے مزدور کو
وہ صبح کو اس ڈر سے نہیں بام پر آتا
نامہ نہ کوئی باندھ دے سورج کی کرن میں
وہ ہوا خواہ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں آتا ہوں اور باد صبا میرے بعد
دشمن کے کام کرنے لگا اب تو دوست بھی
تو اے رقیب درپئے آزار ہے عبث
ترک شراب بھی جو کروں گا تو محتسب
توڑوں گا تیرے سر سے پیالہ شراب کا
عاشق کو نہ لے جائے خدا ایسی گلی میں
جھانکے نہ جہاں روزن دیوار سے کوئی
گلشن عشق کا تماشا دیکھ
سر منصور پھل ہے دار درخت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ستارے گم ہوئے خورشید نکلا
عرق جب یار نے پونچھا جبیں سے
لطف تب امرد پرستی کا ہے باغ خلد میں
پاس بیٹھے جبکہ غلماں اور کھڑی ہو حور دور
پروانے کے حضور جلایا نہ شمع کو
بلبل کے آگے پھول نہ توڑا گلاب کا
گل ہے عارض تو قد یار درخت
کب ہو ایسا بہاردار درخت
-
موضوع : درخت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جی میں آتا ہے مے کشی کیجے
تاک کر کوئی سایہ دار درخت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اگر عریانیٔ مجنوں پہ آتا رحم لیلیٰ کو
بنا دیتی قبا وہ چاک کر کے پردہ محمل کا
وہ آئنہ تن آئینہ پھر کس لیے دیکھے
جو دیکھ لے منہ اپنا ہر اک عضو بدن میں
اسلام کا ثبوت ہے اے شیخ کفر سے
تسبیح ٹوٹ جائے جو زنار ٹوٹ جائے
کیا خبر ہے ہم سے مہجوروں کی ان کو روز عید
جو گلے مل کر بہم صرف مبارک باد ہیں
مرتبہ معشوق کا عاشق سے بالا دست ہے
خار کی جا زیر پا گل کا مکاں دستار پر
اپنے مجنوں کی ذرا دیکھ تو بے پروائی
پیرہن چاک ہے اور فکر سلانے کی نہیں
برسوں خیال یار رہا کچھ کھچا کھچا
اک دم مرا جو اور طرف دھیان بٹ گیا
کوچۂ جاناں میں یارو کون سنتا ہے مری
مجھ سے واں پھرتے ہیں لاکھوں داد اور بیداد میں
کون دریائے محبت سے اتر سکتا ہے پار
کشتیٔ فرہاد آخر کوہ سے ٹکرا گئی
آئے کبھی تو دشت سے وہ شہر کی طرف
مجنوں کے پاؤں میں جو نہ زنجیر جادہ ہو
فریاد کی آتی ہے صدا سینے سے ہر دم
میرا دل نالاں ہے کہ انگریزی گھڑی ہے
نکلا نہ داغ دل سے ہمارا تو کوئی کام
نہ وہ چراغ دیر نہ شمع حرم ہوا
زلف پر پیچ کے سودے میں عجب کیا امکاں
گر الجھ جائے خریدار خریدار کے ساتھ