Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qabil Ajmeri's Photo'

قابل اجمیری

1931 - 1962 | حیدرآباد, پاکستان

قابل اجمیری کے اشعار

7K
Favorite

باعتبار

تمہاری گلیوں میں پھر رہا ہوں

خیال رسم وفا ہے ورنہ

تم کو بھی شاید ہماری جستجو کرنی پڑے

ہم تمہاری جستجو میں اب یہاں تک آ گئے

راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے

فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

بہت کام لینے ہیں درد جگر سے

کہیں زندگی کو قرار آ نہ جائے

آج جنوں کے ڈھنگ نئے ہیں

تیری گلی بھی چھوٹ نہ جائے

کوئی دیوانہ چاہے بھی تو لغزش کر نہیں سکتا

ترے کوچے میں پاؤں لڑکھڑانا بھول جاتے ہیں

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

غم جہاں کے تقاضے شدید ہیں ورنہ

جنون کوچۂ دلدار ہم بھی رکھتے ہیں

کتنے شوریدہ سر محبت میں

ہو گئے کوچۂ صنم کی خاک

میں اپنے غم خانۂ جنوں میں

تمہیں بلانا بھی جانتا ہوں

یہ گردش زمانہ ہمیں کیا مٹائے گی

ہم ہیں طواف کوچۂ جاناں کیے ہوئے

کوچۂ یار مرکز انوار

اپنے دامن میں دشت غم کی خاک

یہ سب رنگینیاں خون تمنا سے عبارت ہیں

شکست دل نہ ہوتی تو شکست زندگی ہوتی

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں

اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں

رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب

چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد

سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا

آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

کون یاد آ گیا اذاں کے وقت

بجھتا جاتا ہے دل چراغ جلے

دن چھپا اور غم کے سائے ڈھلے

آرزو کے نئے چراغ جلے

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے

عشق انسان کی ضرورت ہے

زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے

خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دشمنی ہو جائے

حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے

ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی

قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا

تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابلؔ مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے

اہل دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے

کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں

قابلؔ غم دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے

ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا

حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں

کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی

یوں بھی ہوا ہے جشن چراغاں کبھی کبھی

تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے

میں رو رہا ہوں تم ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

مجھے تو اس درجہ وقت رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو

مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاق جنوں پہ لیکن

تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے