سالک لکھنوی کے اشعار
ناخدا ڈوبنے والوں کی طرف مڑ کے نہ دیکھ
نہ کریں گے نہ کناروں کی تمنا کی ہے
منزل نہ ملی کشمکش اہل نظر میں
اس بھیڑ سے میں اپنی نظر لے کے چلا ہوں
ساحل پہ قید لاکھوں سفینوں کے واسطے
میری شکستہ ناؤ ہے طوفاں لیے ہوئے
زنداں میں اچانک ہے یہ کیا شور سلاسل
یہ سالکؔ بے باک کا ماتم تو نہیں ہے
محو یوں ہو گئے الفاظ دعا وقت دعا
ہاتھ سے ظرف طلب چھوٹ گیا ہو جیسے
مٹ چکے جو بھی تھے توبہ شکنی کے اسباب
اب نہ مے خانہ نہ پیمانہ نہ شیشہ نہ سبو
اپنی خودداری سلامت دل کا عالم کچھ سہی
جس جگہ سے اٹھ چکے ہیں اس جگہ پھر جائیں کیا
آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں
مے خانۂ ہستی میں ساقی ہم دونوں ہی مجرم ہیں شاید
خم تو نے بچا کے رکھے تھے پیمانے میں نے توڑے ہیں
چاہا تھا ٹھوکروں میں گزر جائے زندگی
لوگوں نے سنگ راہ سمجھ کر ہٹا دیا
بہار گلستاں ہم کو نہ پہچانے تعجب ہے
گلوں کے رخ پہ چھڑکا ہے بہت خون جگر ہم نے
نگاہ مہر کہاں کی وہ برہمی بھی گئی
میں دوستی کو جو رویا تو دشمنی بھی گئی
نظر سے دیکھ تو ساقی اک آئینہ بنایا ہے
شکستہ شیشہ و ساغر کے ٹکڑے جوڑ کر ہم نے
یہ بھی اک رات کٹ ہی جائے گی
صبح فردا کی منتظر ہے نگاہ
کھینچ بھی لیجئے اچھا تو ہے تصویر جنوں
آپ کی بزم میں کیا جانئے کل ہوں کہ نہ ہوں
جو تیری بزم سے اٹھا وہ اس طرح اٹھا
کسی کی آنکھ میں آنسو کسی کے دامن میں
ستارے کی طرح سینے میں دل ڈوبا کیا لیکن
شب غم کے اندھیرے سے نہیں مانگی سحر ہم نے
نگاہ شوق سے لاکھوں بنا ڈالے ہیں در ہم نے
قفس میں بھی نہیں مانی شکست بال و پر ہم نے
مال و زر اہل دول سامنے یوں گنتے ہیں
ہم فقیروں نے نہ کچھ صرف کیا ہو جیسے
یونہی انسانوں کے شہروں میں ملا اپنا وجود
کسی ویرانے میں اک پھول کھلا ہو جیسے
دھواں دیتا ہے دامان محبت
ان آنکھوں سے کوئی آنسو گرا ہے
کہی کسی سے نہ روداد زندگی میں نے
گزار دینے کی شے تھی گزار دی میں نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ