aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "اگتا"
منیجر ہفتہ وار
ناشر
امتہ الغنی نورالنساء
مصنف
محمد ہبتہ اللہ
امتیاز خان اگت پوری
born.1965
شاعر
رام اوتا شرما
بدری آتا بائی
امتہ الکریم
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیںیہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد ناموہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
جو بڑھتا ہے جو اگتا ہےوہ دانا ہے یا میوہ ہے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگایوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
اگتا ہے کہ مٹی ہی میں ہو جاتا ہے مٹیاس بیج کا اس خاک میں بونا ہی بہت ہے
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
نون میم راشد کا شمار اردو کےان ممتاز نظم گو شعرا میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے خوبصورت اور آرائشی اسلوب سے اس صنف کی صحیح معنوں میں ایک پہچان دی ہے۔ اس مجموعہ میں ان کی منتخب نظموں کے ساتھ ساتھ ان نظموں کی ڈرامائی ریکارڈنگز بھی شامل ہیں، تاکہ آپ ان نظموں کو سن کر بھی لطف اٹھا سکیں
ایسے اشعار کا مجموعہ جس میں کسی خیال کو تسلسل سے پیش کیا جائے اسے قطعہ کہتے ہیں ۔یہ دو شعروں پر مشتمل ہوتا ہے اور دونوں میں باہمی ربط ضروری ہوتا ہے اگر کسی غزل میں ایک سے زیادہ قطعات موجود ہوں تو اس غزل کو قطعہ بند غزل کہا جاتا ہے ۔
उगताاگتا
germinate, vegetate
عجائبات فرنگ
یوسف خاں کمبل پوش
سفر نامہ
مشاہدات
ہوش بلگرامی
خود نوشت
اگر دریا ملا ہوتا
قیصر الجعفری
لال قلعہ کی ایک جھلک
ناصر نذیر فراق دہلوی
اخلاقیات
لہو سےچاند اگتا ہے
اقبال کی قومی شاعری
حالات کشمیر مع کشمیر کا خونی ہفتہ
مولوی محمد مہتاب علی کپور ظہوری
تحریک آزادی
اگرمیں طبیب ہوتا
میر ولی الدین
طب
اتا ترک مصطفیٰ کمال
کے۔ اے حمید
عالمی تاریخ
ایک ہفتہ چین میں
ڈھائی ہفتہ پاکستان میں یا مبارک سفر
عبد الماجد دریابادی
کاش نوجوانوں کو معلوم ہوتا
محمد افروز قادری چر یا کوٹی
اسلامیات
مجھ سے کہا ہوتا
آنند لہر
معاشرتی
کھانے پر ایک ہندوستانی انجینئر بھی مدعو تھے۔ یہ انجینئر ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ کلکتہ میں قحط پڑا ہوا ہے۔ اس پر ٹلی کا قونصل قہقہہ مار کر ہنسنے لگا اور مجھے بھی اس ہنسی میں شریک ہونا پڑا۔ دراصل یہ پڑھے لکھے، ہندوستانی بھی بڑے جاہل ہوتے ہیں۔کتابی علم سے قطع نظر انھیں اپنے ملک کی صحیح حالت کا کوئی اندازہ نہیں۔ ...
تڑپ کر بولے ’’صاحب! میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا، تاوقتیکہ اس گھپلے کی اصل وجہ تلفظ کی مجبوری نہ ہو۔۔۔ کافی کی مہک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک تربیت یافتہ ذوق کی ضرورت ہے۔ یہی سوندھا پن لگی ہوئی کھیر اور دُھنگارے ہوئے رائتہ میں ہوتا ہے۔‘‘ میں نے معذرت کی ’’کُھرچن اور دُھنگار دونوں سے مجھے متلی ہوتی ہے۔‘‘
’’کم آن ڈارلنگ صغراں بی بی! آج الحمرا میں کلچرل شو دیکھیں۔ ڈانس، میوزک، وھاٹ اے تھرل! ہنی! بس یہ وائیٹ ساڑھی خوب میچ کرےگی اور اس کے ساتھ بالوں میں سفید موتیے کے پھولوں کا گجراما ئی مائی! یو آر سویٹ ڈارلنگ صغراں بی بی!’’ندی کنارے یہ کاٹیج کس قدر خوبصورت ہے۔ سرسبز لان، ترشی ہوئی گھاس، قطار میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے۔ایک ملازم غسل خانے میں لکس صابن سے کتے کو نہلا رہا ہے۔ اس کے بعد تولیے سے اس کا جسم خشک کیا جائےگا۔ کنگھی پھیری جائےگی۔ گلے میں ایپرن باندھا جائے گا اور اسے دو آدمیوں کا کھانا کھلا جائےگا اور پھر فورڈ کار میں بیٹھ کر مال روڈ کی سیر کروائی جائےگی۔ آج اگر گوتم بدھ زندہ ہوتا تو وہ جانوروں کے ساتھ انسانوں کی اتنی شدید محبت کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتا۔ آج اسے انسانی دکھوں اور مصیبتوں کو دیکھ کر محل چھوڑکر جنگل میں جا بیٹھنے کی کبھی بھی ضرورت محسوس نہ ہوتی بلکہ وہ محل ہی میں اپنی بیوی بچے اور اور لونڈیوں کے ساتھ رہتا۔
بہت ہی راس ہے صحرا لہو کوکہ صحرا میں لہو اگتا بہت ہے
کتاں کا جگر چاک سنتا ہی ہےسیہ رنگ اگتا ہے سرو سہی
زخم ناسور کوئی ہونے سےدرد اگتا ہے درد بونے سے
ہماری معلومات عامہ کا امتحانہم کہہ یہ رہے تھے کہ صرف اتنا یاد ہے کہ ۲۶ تاریخ تھی اور شام کے چھ بج رہے تھے۔ صبح ساڑھے چھ بجے ناشتے کے بعد، معدے کو مزید زحمت ہضم نہیں دی تھی۔ باہر سڑک پر ایک ٹھیلے والا دن بھر دودھیا بھٹوں سے راستہ چلتے لوگوں کو للچانےکے بعد اب خود ہی بھون بھون کر کھارہا تھا۔ سوتی جاگتی انگیٹھی پر بھٹوں اور کوئلوں کے چٹخنے کی چٹرپٹر سے رال بنانے کے غدود اس بری طرح مشتعل ہوئے کہ جب تک ہم نے اپنی اکنی کو بھٹے میں تبدیل نہ کرلیا، یار کو میں نے، مجھے یار نے سونے نہ دیا۔ انگیٹھی سے بھٹا، براہ شاہجہانی روزن، (اس کی تفصیل ’’کوئی قلزم، کوئی دریا، کوئی قطرہ، مددے!‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں) ہم تک پہنچا اور ہم نے بیتابی سے منہ مارا۔ (’’بھٹے، مرغی کی ٹانگ، پیاز اور گنے پر جب تک دانت نہ لگے، رس پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ مرزا عبد الودود بیگ)
اگر بکھرتی تو سورج کبھی نہیں اگتاترے خیال کہ وہ زلف بس گھٹا لگتی
چاند ترے ماتھے سے اگتا ہے چندارات مری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے
کوئی پھل پھول نہیں مغربی چٹانوں پرچاند جس گاؤں سے اگتا ہے وہ دنیا دیکھوں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books