aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "جڑ"
حسرتؔ جے پوری
1922 - 1999
شاعر
اے جی جوش
1928 - 2007
جے کرشن چودھری حبیب
born.1904
شمیم جے پوری
1933 - 1999
بہرام جی
1828 - 1895
امن جی مشرا
born.2001
مناکشی جی جی ویشا
born.1978
جے شنکر پرساد
1889 - 1937
اننت شہرگ
born.1999
مجاز جے پوری
born.1937
جی اے نجم
born.1985
جی آر وشیشٹھ
born.1996
جے پی سعید
born.1932
صائم جی
born.1983
بلبل کاشمیری
born.1922
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کیجو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہتخود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میںدور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے
جس کے کارن فساد ہوتے ہیںاس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہےتو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
تخلیقی زبان ترسیل اور بیان کی سیدھی منطق کے برعکس ہوتی ہے ۔ اس میں کچھ علامتیں ہیں کچھ استعارے ہیں جن کے پیچھے واقعات ، تصورات اور معانی کا ایک پورا سلسلہ ہوتا ہے ۔ صیاد ، نشیمن ، قفس جیسی لفظیات اسی قبیل کی ہیں ۔ شاعری میں صیاد چمن میں گھات لگا کر بیٹھنے والا ایک شخص ہی نہیں رہ جاتا بلکہ اس کی کرداری صفت اس کے جیسے تمام لوگوں کو اس میں شریک کرلیتی ہے ۔ اس طور پر ایسی لفظیات کا رشتہ زندگی کی وسعت سے جڑ جاتا ہے ۔ یہاں صیاد پر ایک چھوٹا سا انتخاب پڑھئے ۔
سمندر کو موضوع بنانے والی شاعری سمندر کی طرح ہی پھیلی ہوئی ہے اور الگ الگ ڈائمینشن رکھتی ہے ۔ سمندر ، اس کی تیزوتند موجیں خوف کی علامت بھی ہیں اور اس کی صاف وشفاف فضا ، ساحل کا سکون اوربیکرانی، خوشی کا استعارہ بھی ۔ آپ اس شاعری میں دیکھیں گے کہ کس طرح عام سا نظر آنے والا سمندر معنی کے کس بڑے سلسلے سے جڑ گیا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور لطف لیجئے ۔
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
जुड़جڑ
addition/ include/ join
जड़جڑ
root
بے جڑ کے پودے
سہیل عظیم آبادی
معاشرتی
اردو کا ابتدائی زمانہ
شمس الرحمن فاروقی
تنقید
مکتوبات حضرت علی
حضرت علی
خط
مصباح الحکمت
محمد فیروز الدین
طب
اپنا گریباں چاک
جاوید اقبال
خود نوشت
سیاست نامہ
نظام الملک طوسی
قانون
جدید نظم: حالی سے میرا جی تک
کوثر مظہری
نظم
کلیات نفیسی
ابو علی سینا
کلیات حسن
محمد حسن رضا خان
کلیات
پاک و ہند کی جڑی بوٹیاں
صوفی لچھمن پرشاد
آیوروید
جو ملے تھے راستے میں
احمد بشیر
دلی جو ایک شہر تھا
شاہد احمد دہلوی
مقالات/مضامین
دیوان حضرت علی
دیوان
گرونانک دیو
گوپال سنگھ
سکھ ازم
میرا جی ایک مطالعہ
جمیل جالبی
شاعری تنقید
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیںجس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہےآنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
جو گزاری نہ جا سکی ہم سےہم نے وہ زندگی گزاری ہے
موتی ہو کہ شیشہ جام کہ درجو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کےوہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نےتو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
بڑی ممانی کا کفن بھی میلا نہیں ہواتھا کہ سارے خاندان کو شجاعت ماموں کی دوسری شادی کی فکر ڈسنے لگی۔ اٹھتے بیٹھتے دلہن تلاش کی جانے لگی۔ جب کبھی کھانے پینے سے نمٹ کر بیویاں بیٹیوں کی بری یا بیٹیوں کا جہیز ٹانکنے بیٹھتیں تو ماموں کے لیے دلہن...
(۱) ہلکو نے آ کر اپنی بیوی سے کہا، ’’شہنا آیا ہے لاؤ جو روپے رکھے ہیں اسے دیدو کسی طرح گردن تو چھوٹے۔‘‘...
اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیںکیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books