aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ناپ"
مینا کماری ناز
1933 - 1972
شاعر
ناز خیالوی
1947 - 2010
ناز بٹ
ناز قادری
1940 - 2019
مصنف
فرزانہ ناز
ناز مرادآبادی
born.1936
مریم ناز
born.1988
شیر سنگھ ناز دہلوی
1898 - 1962
نازمظفرآبادی
born.1955
شاذیہ ناز
born.1998
شگفتہ ناز
نعیم ناز
ناز وائی
کرشن کمار ناز
born.1961
نور جہاں ناز
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کیسو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دونہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تورسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگمیں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسادونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
ایسی ممنوعہ کتابیں جو نام نہاد سماجی اخلاقیات یا موجودہ حکومتی نظام کی سیاسی دھاندلیوں، معاشی بدعنوانیوں یا سماجی استحصال کو بے نقاب کرنے والی، للکارنے والی اور اس کے خلاف بغاوت پر ابھارنے والی تحریریں اکثر پابندیوں کی زد میں آتی رہیں ہیں، جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا، جن پر باقاعدہ مقدمہ بازی ہوئی اور کئی ادیبوں کو جیل تک جانا پڑا۔ ریختہ ایسی کتابوں کی فہرست قارئین کے لئے پیش کرتا ہے۔
زمانے بیت گئے مگر محمد رفیع آج بھی اپنی آواز کی ساحری کے زور پر ہرکسی کے دل پر اپنی حکومت جمائے ہوئے ہیں ، ان کے گائے ہوئے بھجن ، اورنغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آج ہم آپ کے لئے کچھ مشہورو معروف شاعروں کی ایسی غزلیں لے کر حاضر ہوئے ہیں جنہیں محمد رفیع نے اپنی آواز دی ہے اور ان غزلوں کے حسن میں لہجے اور آواز کا ایسا جادو پھونکا ہے کہ آدمی سنتا رہے اور سر دھنتا رہے ۔
مہاتما گاندھی نہ صرف سماجی اور سیاسی حلقوں میں بلکہ شاعروں اور ادیبوں کے درمیان بھی کافی مقبول تھے۔ پیار سے باپو کہے جانے والے اس قومی رہنما کو اردو شاعروں نے بھی اپنی نظموں اور غزلوں میں خاصی جگہ دی ہے۔ گاندھی جی کے اصول و عقاید جیسے حق ، انصاف اور عدم تشدّد وغیرہ کو بنیاد بنا کر اردو میں بھی بے شمار کام ہوئے ہیں۔ یہاں ہم گاندھی جی پر کہی گئی ۲۰ بہترین نظمو ں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں۔
नापناپ
measurement
اردو کا ابتدائی زمانہ
شمس الرحمن فاروقی
تنقید
تنہا چاند
مجموعہ
کلیات نفیسی
ابو علی سینا
طب
کلیات حسن
محمد حسن رضا خان
نعت
اگر اب بھی نہ جاگے تو
شمس نوید عثمانی
ترجمہ
زیر لب
صفیہ اختر
تاریخ و تنقید
تماشا گھر
اقبال مجید
افسانہ
اصلی میلاد اکبر وارثی
محمد اکبر وارثی
دستک نہ دو
الطاف فاطمہ
تاریخی
بیاض جاں
آغا سروش
اردو ناول کا سفر
فکشن تنقید
عجائبات فرنگ
یوسف خاں کمبل پوش
سفر نامہ
اردو میں نعت گوئی
ریاض مجید
دامن یوسف
فیض احمد فیض
خطوط
کلیات حفیظ تائب
حفیظ تائب
وہ گردن ناپتا ہے ناپ لےمگر ظالم سے ڈر جانے کا نئیں
جو گزاری نہ جا سکی ہم سےہم نے وہ زندگی گزاری ہے
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤ نوشبیچتا ہے ہاشمی ناموس دين مصطفیٰ
اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیںفقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد ناموہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کا وجود کچاپھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے حتیٰ کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو وہ بیان بھی کرنا چاہتاتو نہ کر سکتا۔بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیداہوکرمٹ جایا کرتے ہیں۔ مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضاء میں پیدا ہو گیا تھا۔ جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدّت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے،’’مجھے کوٹنا شروع کر دو۔‘‘
بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیرِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔ بلدیہ کے ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور دردمند سمجھے جاتے تھے، نہایت فصاحت سے تقریر کر رہے تھے، ’’اور پھر حضرات آپ یہ بھی خیال فرمائیے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گا ہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔ چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خرید و فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھاآنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کیبڑی آرزو تھی ملاقات کی
آج کتنی آس بھری نگاہیں کبریٰ کی ماں کے متفکر چہرے کو تک رہی تھیں چھوٹے عرض کی ٹول کے دو پاٹ تو جوڑ لئے گئے تھے مگر ابھی سفید گزی کا نشان بیونتے کی کسی کو ہمت نہ پڑی تھی۔ کاٹ چھانٹ کے معاملہ میں کبریٰ کی ماں کا مرتبہ بہت اونچا تھا۔ ان کے سوکھے سوکھے ہاتھوں نے نہ جانے کتنے جہیز سنوارے تھے کتنے چھٹی چھوچھک تیار کئے تھے اور کتنے ہی کفن بیونتے تھے۔ جہاں...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books