aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "نایک"
حسن نعیم
1927 - 1991
شاعر
نعیم ضرار احمد
born.1965
نعیم اختر خادمی
طارق نعیم
born.1958
نعیم سرمد
born.1992
نعیم صدیقی
1916 - 2002
نثار ناسک
1943 - 2019
نعیم گیلانی
born.1972
اطہر ناسک
1959 - 2012
رونق نعیم
born.1933
نعیم فراز
born.1980
نعیم صبا
مصنف
عبدالسمیع صدیقی نعیم
born.1983
نعیم رضا بھٹی
born.1988
نعیم ناز
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیںکہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیںیہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہےلمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھاکشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہےجب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے
ماں سے محبت کا جذبہ جتنے پر اثر طریقے سے غزلوں میں برتا گیا ہے، اتنا کسی اور صنف میں نہیں۔ ہم ایسے کچھ منتخب اشعار آپ تک پہنچا رہے ہیں، جو ماں کو موضوع بناتے ہیں۔ ماں کے پیار، اس کی محبت ، شفقت اور اپنے بچوں کے لئے اس کی جاں نثاری کو واضح کرتے ہوئے یہ اشعار جذبے کی جس شدت اور احساس کی جس گہرائی سے کہے گئے ہیں، اس سے متاثر ہوئے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔ ان اشعار کو پڑھئے اور ماں سے محبت کرنے والوں کے درمیان شئیر کیجئے ۔
غزل کا سفر بہت لمبا رہا ہے - اس سفر میں غزل صنف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، بلکہ اشعار کے مضمون وقت کے ساتھ بدلتے گئے- غزل کے اس لمبے سفر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس صنف نے شہریوں کو وو آزادی دی، جسسے وہ اپنے خیال کو خوبصورتی سے پیش کر سکیں - حاضر ہے چند ایسی ہی بہترین غزلیں، پڑھئے اور لطف لیجئے-
شاعری میں وطن پرستی کے جذبات کا اظہار بڑے مختلف دھنگ سے ہوا ہے ۔ ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں وہ بھی اور کچھ ایسے گوشے بھی جن پر ہماری نظر نہیں ٹھہرتی اس شاعری کا موضوع ہیں ۔ وطن پرستی مستحسن جذبہ ہے لیکن حد سے بڑھی ہوئی وطن پرستی کس قسم کے نتائج پیدا کرتی ہے اور عالمی انسانی برادری کے سیاق میں اس کے کیا منفی اثرات ہوتے ہیں اس کی جھلک بھی آپ کو اس شعری انتخاب میں ملے گی ۔ یہ اشعار پڑھئے اور اس جذبے کی رنگارنگ دنیا کی سیر کیجئے ۔
नायकنایک
hero
مہا نایک بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر
موہن داس نیمشرائے
ناول
کلیات حسن
محمد حسن رضا خان
نعت
ابتدائی کمپیوٹر ٹریننگ کورس
نعیم احسن
ہندوستان میں فارسی ادب
نعیم الدین
تنقید
محسن انسانیت
دیگر
اساس عربی
محمد نعیم الرحمٰن
زبان
حیرت ناک کہانیاں
جمیل جالبی
افسانہ
نازک خیالیاں
کنہیا لال کپور
نثر
اور بستی نہیں یہ دلّی ہے
رفعت سروش
خود نوشت
شاعری نہیں ہے یہ
فرحت احساس
مجموعہ
یادوں کی دنیا
یوسف حسین خاں
ہندوستانی تاریخ
گورو نانک
گور بچن سنگھ طالب
سوانح حیات
راہیں بند نہیں
مولانا وحیدالدین خاں
لال قلعہ کی ایک جھلک
ناصر نذیر فراق دہلوی
اخلاقیات
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیںوفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد ناموہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کااسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجودپھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
ناظرین کو یاد ہوگا کہ ایک سربرآوردہ ہندو ایڈیٹر نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں دعویٰ کیا تھا کہ ’’مسلمانوں نے تعصب مذہبی کی وجہ سے ہندی علم وادب پر کبھی توجہ نہیں کی اور اگر اتفاقیہ کسی نے کچھ کی تو اس کو مسلمانوں نے کافر کہہ کے پکارا۔‘‘ اس کا جواب الندوہ کے پرچہ میں ’’مسلمانوں کی بے تعصبی‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا تھا، جس میں مسلمانوں کی ان فیاضیوں کو...
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدالڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہر رات یہ اپرادھ سنگین کرتی ہوںمیرا نام عام میں لینے نہیں
شجر حجر نہیں کہ ہمہمیشہ پا بہ گل رہیں
کپتان پولس سے لکڑبگھا زندہ پکڑلانے کے اس کارنامے پرشاباشی اورانعام لینا ہے۔ اس خواہش کے نشے میں وہ ہجوم ایسا بے حواس ہوا کہ یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کا بنگلہ آباد ی سے پرے جنگل کے راستے میں ہے اور جنگل دیکھ کر اس کی وحشت بھڑک بھی سکتی ہے۔ اور یہی ہوا۔لکڑبگھے کولیے ہوئے وہ ہجوم ابھی پولس کپتان کے بنگلے کے راستے ہی میں تھا اوربنگلے کی چاردیواری تھوڑی ہی دوررہ گئی تھی توجانے اس کے اندرکہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ وہ ایک لمحے کورکا۔گردن میں پڑی زنجیر کھینچی اور تن کررہ گئی۔ منھ پر بندھے مسیکے کے اندر غراہٹیں آپس میں گڈمڈ ہونے لگیں۔ تب زنجیر تھامے شخص نے اپنی پوری طاقت سے زورلگایا۔ لکڑبگھے کے اگلے پنجے زمین سے اٹھے اور پچھلے پنجوں پہ تھما اس کا بدن چند بالشت آگے سرک آیا اور اتنے حصے کی زمین پر اس کے پنجوں کے نشان ایسے بن گیے جیسے کسی نے زمین پر دولاٹھیاں رکھ کرطاقت سے کھینچ دی ہوں۔ پچھلے پنجوں کودَم لگاکر روکا۔ اگلے پنجے فضا میں بلند کیے اورپورے بدن کی قوت کو ریڑھ کی ہڈی اوربازوؤں کے جوڑوں میں بھرکر چھلانگ لگا دی۔
‘‘نہیں مجھے تم سے آگے چلنا ہے!‘‘میری بھی تو ایک ہی ضد تھی۔سمندر کی بہتی لہروں کے کناروں سے زرا پرے، ان اونچے پہاڑوں پر چڑھتے نہ مجھے تنہائیوں کا ڈر تھا، نہ آسیبی ہوائ مخلوق کا، نہ آس پاس بکھری جانوروں کی بچی کھچی ہڈیوں سے اپنے وجود کی گواہی دیتے درندوں کاصرف ایک احساس تھا کہ وہ ایک مضبوط سہارا ہوکر میرے ساتھ ہے ہر بار گرتے ہوے تھا نے کے لئے!
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books