aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "इस्तिआरे"
مکتبہ استعارہ، جامعہ نگر، نئی دہلی
ناشر
مکتبہ استعارہ، نئی دہلی
استعارہ پبلیکیشن، السلام آباد
استعارہ پبلی کیشنز، نئی دہلی
رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کےتم سے تھے جتنے استعارے تھے
لالہ و گل سے تجھ کو کیا نسبتنا مکمل سے استعارے ہیں
ہیر سیال کے کمروں میں چلے چلتے ہیںسارتر سے استعارہ ملتے ہی
اشعار ہیں میرے استعارےآؤ تمہیں آئنہ دکھاؤں
استعارے نہیں ہیں پاس مرےکیونکے میں نے
تخلیقی زبان ترسیل اور بیان کی سیدھی منطق کے برعکس ہوتی ہے ۔ اس میں کچھ علامتیں ہیں کچھ استعارے ہیں جن کے پیچھے واقعات ، تصورات اور معانی کا ایک پورا سلسلہ ہوتا ہے ۔ صیاد ، نشیمن ، قفس جیسی لفظیات اسی قبیل کی ہیں ۔ شاعری میں صیاد چمن میں گھات لگا کر بیٹھنے والا ایک شخص ہی نہیں رہ جاتا بلکہ اس کی کرداری صفت اس کے جیسے تمام لوگوں کو اس میں شریک کرلیتی ہے ۔ اس طور پر ایسی لفظیات کا رشتہ زندگی کی وسعت سے جڑ جاتا ہے ۔ یہاں صیاد پر ایک چھوٹا سا انتخاب پڑھئے ۔
کشتی ،ساحل ، سمندر ، ناخدا ، تند موجیں اور اس طرح کی دوسری لفظیات کو شاعری میں زندگی کی وسیع تر صورتوں کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے ۔ کشتی دریا کی طغیانی اور موجوں کی شدید مار سے بچ نکلنے اور ساحل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کشتی کی اس صفت کو بنیاد بنا کر بہت سے مضامین پیدا کئے گئے ہیں ۔ کشتی کے حوالے سے اور بھی کئی دلچسپ جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
تخلیقی زبان ترسیل اور بیان کی سیدھی منطق کے برعکس ہوتی ہے ۔ اس میں کچھ علامتیں ہیں کچھ استعارے ہیں جن کے پیچھے واقعات ، تصورات اور معانی کا پورا ایک سلسلہ ہوتا ہے ۔ چمن ،صیاد ، گلشن ،نشیمن ، قفس جیسی لفظیات اسی قبیل کی ہیں ۔ یہاں جو شاعری ہم پیش کر رہے ہیں وہ چمن کی ان جہتوں کو سامنے لاتی ہے جو عام طور سے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہیں ۔
इस्तिआ'रेاستعارے
similes
سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ
گوپی چند نارنگ
تنقید
تخلیق، تخئیل اور استعارہ
معید رشیدی
شاعری تنقید
شمارہ نمبر 010-11
حقانی القاسمی
استعارہ
شمارہ نمبر 012,013
صلاح الدین پرویز
شمارا نمبر۔002,003
Sep 2002استعارہ
شمارہ نمبر۔ 001
Jan, Feb, Mar 2001استعارہ
شمارہ نمبر۔010,011
Mar, Oct 2003استعارہ
شمارہ نمبر-012، 013
شمارہ نمبر ـ 001
شمارہ نمبر۔002
شمارہ نمبر-002، 003
شمارہ نمبر-019
شمارہ نمبر۔022,023
شمارہ نمبر۔015,015
شمارہ نمبر- 017، 018
Jul, Aug, Sep, Oct, Nov, Dec 2004استعارہ
وہ جدا ہو کر دوبارہ مل سکے گا یا نہیںکرتے کرتے عمر بھر ہم استخارے مر گئے
(۱) ادائے مطلب کے لیے غزل گو کی زبان کو سلیس ہونا چاہیے کس واسطے کہ واردات قلبیہ کے بیانات مغلقات سے بے تاثیر ہو جاتے ہیں۔ (۲) جس قدر ممکن ہو زبان کی سادگی ملحوظ رہے۔ غزل گوئی کو صنائع بدائع کی حاجت نہیں ہوتی۔
لالہ و گل کے بے ساختہ استعارے لگے
اب اذن ہو تو تری زلف میں پرو دیں پھولکہ آسماں کے ستارے تو استعارے تھے
(۵) اجمال، تفصیل سے بہتر ہے۔(۶) استعارہ، تشبیہ سے بہتر ہے۔
منشی رام سیوک بڑے حوصلہ جگر کے آدمی تھے۔ نہ انھیں دیوانی کا خوف تھا، نہ فوجداری کا، مگر مونگا کے ان خوفناک نعروں کو سن کر وہ بھی سہم جاتے تھے۔ ہمیں انسانی انصاف کا چاہے خوف نہ ہو اور بسا اوقات نہیں ہوتا۔مگر خدائی انصاف کا خوف ہر انسان کے دل میں خلقی طورپر موجود رہتا ہے اور کبھی کبھی ایسے مبارک اتفاقات پیش آجاتے ہیں جب نفس کے نیچے دبا ہوا یہ خیال او...
تخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے، تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت۔ استعارہ اور علامت سے ملتی جلتی اور بھی چیزیں ہیں، مثلاً تمثیل Allegory، آیتSign، نشانی Embelm وغیرہ۔ لیکن یہ تخلیقی زبان کے شرائط نہیں ہیں، اوصاف ہیں۔ ان کا نہ ہونا زبان کے غیرتخلیقی ہونے کی دلیل نہیں۔ علاوہ بریں انھیں استعارے کے ذیل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت میں سے کم سے کم دو عناصر تخلیقی زبان میں تقریباً ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اگر دو سے کم ہوں تو زبان غیرتخلیقی ہوجائے گی۔ یہ اصول اس قدر بین اور شواہد وبراہین کے ذریعہ اس قدر مستند ہے کہ اس سے اختلاف شاید ممکن نہ ہو، تشبیہ کی تعریف بہت آسان اور بہت معروف ہے، دو مختلف اشیاء میں نقطۂ اشتراک کی دریافت اور اس نقطۂ اشتراک کی وضاحت کے ساتھ ان مختلف اشیاء کا ذکر، یہ ہے تشبیہ۔ مثلاً زید شیر کی طرح بہادر ہے۔
جہاں look کے بہت سے معنی ہیں، وہاں ایک (قدیمی) معنی ہیں، ’’دیکھنے کی قوت یا صلاحیت حاصل کرنا۔‘‘ لہٰذا رومیو کی بات کا ایک قوی مطلب یہ ہوا کہ ’’اے میری آنکھ اب آخری بار دیکھنے کی قوت حاصل کر لو، کیونکہ جب جولیٹ نہ دکھائی دے گی تو کچھ بھی دکھائی نہ دےگا۔‘‘ ان معنی کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ پورے ڈرامے میں رومیو نے جولیٹ کے لیے جگہ جگہ روشنی ...
مرزا جب سے بولنا سیکھے ہیں، اپنی زبان کو ہماری ذات پر ورزش کراتے رہتے ہیں۔اوراکثر تلمیح و استعارے سے معمولی گالی گلوج میں ادبی شان پیدا کر دیتے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے۔ کہنے لگے، یار! برا نہ ماننا۔ تمہارے فن میں کوئی کروٹ، کوئی پیچ، میرا مطلب ہے، کوئی موڑ نظر نہیں آتا۔ ہم نے کہا، پلاٹ تواردوناولوں میں ہوا کرتا ہے۔ زندگی میں کہاں؟ بولے ہاں، ٹھیک کہتے ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books