aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "परिंदा"
پریا تابیتا
شاعر
پریا درشی
پریہ شندلیہ
born.1995
اشوک پریہ درشی
ناشر
مجھے معلوم ہے اس کا ٹھکانا پھر کہاں ہوگاپرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہاب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
اگر سونے کے پنجڑے میں بھی رہتا ہے تو قیدی ہےپرندہ تو وہی ہوتا ہے جو آزاد رہتا ہے
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہےتیر ہر شخص کی کمان میں ہے
میں بھی تو اس باغ کا ایک پرندہ ہوںمیری ہی آواز میں مجھ کو گانے دے
شاعری لفظ کو چھوڑکراس کے ارد گرد پھیلے ہوئے امکانات کواستعمال میں لاتی ہے۔ پرندہ اوراس طرح کے دوسرے لفظوں کے حوالے سے کی گئی شاعری کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ پرندہ شاعری میں صرف پرندہ ہی نہیں رہتا بلکہ آزادی، بلندی اورپروازکی ایک علامت بن جاتا ہے ۔ پرندےاور کئی سطحوں پرزندگی میں حوصلے کی علامت بن کرسامنےآئے ہیں ۔ پرندوں کا رخصت ہوجانا زندگی کی معصومیت کے خاتمے اور شہری زندگی کے عذاب کا اشارہ بھی ہے ۔ نئی غزل میں یہ موضوع کثرت سے برتا گیا ہے ۔
پان ہندوستانی تہذیب کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ اس کے کھانے اور کھلانے سے سماجی زندگی میں میل جول اور یگانگت کی قدریں وابستہ ہیں لیکن شاعروں نے پان کو اور بھی کئی جہتوں سے برتا ہے ۔ پان کی لالی اور اس کی سرخی ایک سطح پر عاشق کے خون کا استعارہ بھی ہے ۔ معشوق کا منھ جو پان سے لال رہتا ہے وہ دراصل عاشق کے خون سے رنگین ہے ۔ شاعرانہ تخیل کے پیدا کئے ہوئے ان مضامین کا لطف لیجئے ۔
صبح کا وقت اپنی شفافیت ، تازگی ، خوشگوار فضا، پرندوں کی چہچہاہٹ اور کئی وجہوں سے سب کو پسند ہوتا ہے اور اپنی ان صفات کے حوالے سے اس کا استعمال شاعری میں بھی ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ صبح کی آمد کئی علامتی جہتیں بھی رکھتی ہے ایک سطح پر یہ سیاہ رات کے خلاف جنگ کے بعد کی صبح بھی ہے اور ایک نئی جدوجہد کے آغاز کا ابتدائیہ بھی ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ صبح کو اور کئی رنگوں میں دیکھیں گے
परिंदाپرندہ
bird, winged creature
دکھ لال پرندہ ہے
علی محمد فرشی
ماہیہ
کہانیاں پرندوں کی
ادریس صدیقی
افسانہ
ست رنگے پرندے کے تعاقب میں
رشید امجد
پرنده پكڑنے والی گاڑی
غیاث احمد گدّی
تجدید جنون
رابرٹ کنکوئسٹ
نظم
پردہ ہے ساز کا
ساجدہ زیدی
شاعری
پردہ غفلت
سید عابد حسین
ڈرامہ
وہ اور پرندہ
پس پردہ
شیر محمد اختر
ناول
پردہ
محمد فضل الرحمن
تعلیم وپردۂ نسواں
مضامین
آغا حیدر دہلوی
مقالات/مضامین
شمارہ نمبر-000
مسز خاموش
پردہ نشیں
شمارہ نمبر-009
شمارہ نمبر-011
اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہےپرندہ شام کے پل پر بہت خاموش بیٹھا ہے
پھنستا نہیں پرندہ ہے بھی اسی فضا میںتنگ آ گیا ہوں دل کو یوں دام کرتے کرتے
برہنہ ہیں سر بازار تو کیابھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
کھلی ہواؤں میں اڑنا تو اس کی فطرت ہےپرندہ کیوں کسی شاخ شجر کا ہو جائے
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھاسوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
اک عشق نام کا جو پرندہ خلا میں تھااترا جو شہر میں تو دکانوں میں بٹ گیا
پرندہ جانب دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہےپرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books