aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "बे-ज़ार"
بی بی قمرن جان
مصنف
بی امیر جان
آغا شاعر قزلباش
1871 - 1940
شاعر
میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سےمیرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زاریا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوںمیں خود پر بار ہوتی جا رہی ہوں
اس طرح بیٹھے ہو کیوں بیزار سےبھر گیا دل راحت دیدار سے
رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھےہم تھے ترے جلووں کے طلب گار ہمیں تھے
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ایک تخلیق کار زندگی کو جتنے زاویوں اور جتنی صورتوں میں دیکھتا ہے وہ ایک عام شخص کے دائرے سے باہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے حسن اور اس کی بد صورتی کا جو ایک گہرا تجزیہ شعر وادب میں ملتا ہے اس کا اندازہ ہمارے اس چھوٹے سے انتخاب سےلگایا جاسکتا ہے ۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے اس میں بہت پیچ ہیں اور اس کے رنگ بہت متنوع ہیں ۔ وہ بہت ہمدرد بھی ہے اور اپنی بعض صورتوں میں بہت سفاک بھی ۔ زندگی کی اس کہانی کو آپ ریختہ پر پڑھئے ۔
बे-ज़ारبے زار
bored
नाराज़, उकताया हुआ
बे-ज़ारبیزار
sick of/ apathetic
محمد حمید شاہد کی افسانہ نگاری
زوار طالب چودھری
فکشن تنقید
ترانۂ خیال
نعت
ثمرہ نیک و بدسلوک
تاریخی
ظفر الوالہ بمظفر و آلہ
عبداللہ محمد المکی الآصفی
ہندوستانی تاریخ
یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتااس بزم میں ہشیار ہوا بھی نہیں جاتا
شہر کا شہر ہے بے زار کہاں جاؤں میںاور تنہائی ہے دشوار کہاں جاؤں میں
جو تو ہی صنم ہم سے بے زار ہوگاتو جینا ہمیں اپنا دشوار ہوگا
گھر سے بے زار ہوں کالج میں طبیعت نہ لگےاتنی اچھی بھی کسی شخص کی صورت نہ لگے
آفتوں میں گھر گیا ہوں زیست سے بے زار ہوںمیں کسی رومان غم کا مرکزی کردار ہوں
یار ابتدائے عشق سے بے زار ہی رہابے درد دل کے در پئے آزار ہی رہا
عمر ابد سے خضر کو بے زار دیکھ کرخوش ہوں فسون نرگس بیمار دیکھ کر
کون کہتا ہے کہ حالات سے بے زار ہیں ہماے وطن تیرے لیے برسر پیکار ہیں ہم
اہل دیں کی روش تنگ سے بیزار ہوں میںیہ گنہ ہے تو سزا دو کہ گنہ گار ہوں میں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books