aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "शौक़-ए-सैराबी"
شوق سیرابی کی دھن میں تشنگی مروائے گیمجھ کو تیرے عشق میں یہ آگہی مروائے گی
شوقؔ یہ مانا بہت دشوار تھا شعری سفرپھر بھی فنکاروں پہ تیرا فن اثر کرتا رہا
کبھی نہ شوق سفر کم ہوا مرا اے شوقؔنئے سفر کے ارادے مری تھکان میں تھے
اس سے پہلے میں نے راجدہ کو کہیں اور نہیں دیکھا تھا۔ بھانجی نے بتایا وہ عظمی کے سسرال سے ہے اور میں نے سوچا اگر وہ عظمی کے سسرال سے نہ ہوتی تو مجھے کہاں ملتی؟ ویسے راجدہ کا مجھ سے ملنا ناگزیر تھا۔ یہ میں اب سوچتا ہوں۔ شام کے کھانے کے بعد سیر کا پروگرام بن گیا اور ہم سب کمپنی باغ کی طرف چل پڑے۔باغ ابھی فاصلے پر تھا کہ شام کے ٹھنڈے سائے ماند پڑ گیے اور مرطوب ہوا کے نیم جھونکے ہمارے جسموں میں چھوتے باغ میں داخل ہوتے ہی ہم نے چنبیلی اور مولسری کے پھولوں اور ایسی مٹی کی خوشبو سونگھی جسے نہر کے پانی سے سیراب کیا گیا ہو اور جہاں سے سارا دن تیز دھوپ میں گرم بخارات اٹھتے رہے ہوں۔ شہر کی نسبت یہاں کی فضا آزاد اور مرطوب تھی۔ گرم ہوا بڑی نرمی سے چل رہی تھی اور گھنے درختوں کی گہری سبز شاخیں بےمعلوم انداز میں ہل رہی تھیں۔۔۔ سڑک پر چھڑکاؤ کیا ہوا تھا اور بجلی کے پرانے لیمپوں کی زرد روشنی میں وہاں سے نظر آنے والی بھاپ سی خارج ہو رہی تھی۔ پسینوں پر پسینے آ رہے تھے اور عورتیں برقعوں سے پریشان ہو رہی تھیں۔ پردہ کلب کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے اپنے برقعے اس پھرتی سے اتارے جیسے ان میں خطرناک بیماریوں کے جراثیم پیدا ہو گیے ہوں اور لپک کر کلب میں داخل ہو گئیں۔ اندر چاروں طرف پردہ ہی پردہ تھا اور کلب کا کہیں نشان تک نہیں تھا۔ گھاس کے معمولی سے خطے کے عین وسط میں آم کا ایک درخت تھا۔ جس کے پاؤں میں ایک دو شکستہ بنچ پڑے تھے اور دوسری طرف دو پینگیں لٹک رہی تھی۔ عورتوں کو یہاں صرف دو چیزیں کھینچ لاتی تھی۔ پہلی چیز کلب کی پینگیں اور دوسری برقعہ سے نجات۔
شوقؔ یہ اچھا نسخہ ہےکتنا سستا نسخہ ہے
शौक़-ए-सैराबीشوق سیرابی
fond of fulfilling, quenching
اے شوقؔ یہ جفائیں ہیں کیا یہ ستم ہیں کیاہر امتحاں میں بیٹھ کوئی امتحاں نہ چھوڑ
موت برحق ہے مگر شوقؔ یہ منظور نہیںان کے چہرے پہ ہو صدمے کی تھکن میرے بعد
قصد گلہ نہ تھا مگر حشر میں شوق جوش سےہاتھ مرا نہ رک سکا دامن یار دیکھ کر
یہی تو شوقؔ مجبوری ہے اپنی بزم ساقی میںہزار انکار کرتے ہیں مگر جانا ہی پڑتا ہے
ہر خوشی جن پہ میں نے قرباں کیکیوں انہیں شوق جاں ستانی ہے
شوق سفر تو ہے دل پر اشتیاق کوہو جائے مضمحل نہ یہ وقت سفر کہیں
شوقؔ بزم جہاں کی رونق ہےیہ گیا روح کائنات گئی
اس سے حساب زندگی مانگے گا کون شوقؔجیتا رہا جو شہر میں نادار کی طرح
خدا کا شکر ہے اے شوقؔ اب بھی زندہ ہوںستا رہا ہے زمانے سے یہ زمانہ مجھے
نہ جب دیکھی گئی میری تڑپ میری پریشانیپکڑ کر ان کو جھونٹے کھینچ لایا شوق عریانی
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books