aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ ".agfb"
باقر آگاہ ویلوری
1745 - 1805
شاعر
آگاہ دہلوی
1839 - 1917
آگہی پبلیکیشنز، حیدرآباد
ناشر
ادبی کتب خانہ حسین آگاہی
الصفا اکیڈمی آگہی پبلیکیشنز، کراچی
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، پونہ
محمد حسین اغلب
مصنف
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہوپہلے بھی تو گزرے ہیں
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہوآگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیںسامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
بیدار کر کے تیرے بدن کی خود آگہیتیرے بدن کی عمر گھٹاتا رہا ہوں میں
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہیکھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
بھروسے کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا دکھ اور اس کی پائیداری سے حاصل ہونے والا اعتماد دونوں ہی تجربے بہت اہم انسانی تجربے ہیں ۔ انسان اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ سماجی زندگی میں رشتوں کے ایک جال میں پھنسا ہوتا ہے ، جہاں وہ کسی پر بھروسہ کرتا بھی ہے اور اس پر بھروسہ کیا بھی جاتا ہے ۔ شاعروں نے زندگی کی بہت چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا موضوع بنایا ہے ، بھروسے اور اس کی مختلف شکلوں کو مشتمل یہ شاعری ہمیں زندگی کا ایک نیا شعور عطا کرتی ہے ۔
آگہی کلاسیکی شاعری میں کم کم استعمال ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آگہی سے وابستہ تصورات جدید دورکے پیدا کردہ ہیں ۔ جدید شاعری نے انسان اوراس کے باطن ، سماج اورکی مختلف شکلوں کے بارے میں جوایک داخلی اورتخلیقی فکرکو راہ دی ہے اس سے ایک نیا منظرنامہ سامنے آیا ہے ۔ انہیں بنیادوں پرجدید شعریات کا اپنا ایک انفراد بھی قائم ہوتا ہے ۔ آگہی کا رشتہ ایک سطح پر تصوف میں حاصل ہونے والی بے خودی سے بھی ملتا ہے ۔ اس انتخاب میں آگہی کے اس سفر کی چند منزلوں کے نشان ہیں ۔
شعور
ذیشان الحسن عثمانی
افسانہ
خواب و آگہی
اسلم انصاری
آگہی کا منظر نامہ
وہاب اشرفی
تنقید
آگہی کے ویرانے
اقبال متین
مولانا باقر آگاہ ویلوری شخصیت اور فن
ذاکرہ غوث
سوانح حیات
آگہی
ابراہیم اشکؔ
مجموعہ
اردو ادب کا اولین نقاد مولانا باقر آگاہ ویلوری
علیم صبا نویدی
شاعری تنقید
آگہی کا سفر
افتخار اجمل شاہین
شعری آگہی
باقر مہدی
آگہی کا درد
صاحبہ شہریار
نومبر-جولائی
رضیہ حامد
فکر و آگہی
آگہی کے دائرے
انجم فاطمی
آگہی کا تیشہ
مبارک انصاری
غزل
کرب آگہی
آنند نرائن ملا
بھوپال نمبر: شمارہ نمبر-001-004
نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف افادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائےمدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
ہے عجب کچھ معاملہ درپیشعقل کو آگہی سے خطرہ ہے
ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
اچھی بھلی تھی دنیا گزارے کے واسطےالجھے ہوئے ہیں اپنی ہی خود آگہی سے ہم
ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہیمطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے
توہم کی سیہ شب کو کرن سے چاک کر کے آگہی ہر ایک آنگن میں نیا سورج اتارےمگر افسوس یہ سچ ہے وہ شب تھی اور یہ سورج ہے یہ سب کو مان جانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
غم اندیشہ ہائے زندگی کیاتپش سے آگہی کی جل رہا ہوں
آگہی کرب وفا صبر تمنا احساسمیرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books