Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کے شعر اگر سمجھ نہ آئیں تو دو گنا مزہ دیتے ہیں

غالب اپنی سخت گوئی کے لئے بہت مشہور ہیں مگر ہم نے اس کلیکشن سیریز میں غالب کے ان اشعار کا انتخاب کیا ہے جو زبانی طور پر بہت آسان اور معنویت سے بھرپور ہیں

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

مرزا غالب

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

مرزا غالب

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

مرزا غالب

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تشریح

معشوق کو اس کے منہ پر جھوٹا کہہ دینا غالب کا ہی کام تھا۔ اردو غزل کے عاشق کی تو بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ معشوق اس سے کوئی وعدہ کرے۔ یہ وعدہ وصل کا بھی ہو سکتا ہے، ظلم و ستم سے توبہ کا بھی یا کسی نوازش کا بھی۔ وہ ان میں وعدوں سے بہل جاتا ہے اور اگر ایک وعدہ پورا نہیں ہوتا تو کسی دوسرے وعدے کے پورا ہونے کی امید پر جیتا رہتا ہے۔ لیکن غالبؔ نے صاف کہہ دیا کہ محترمہ آپ مجھ سے جو وعدے کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ میں دوسرے احمق عاشقوں کی طرح ان پر یقین کر کے ان کے پورا ہونے کی امید میں جی رہا ہوں تو اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کے کسی وعدے پر کبھی یقین ہی نہیں کیا۔ معشوق کو اتنا بڑا اعصابی جھٹکا دینے کے بعد وہ اسے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی محبت دوسرے عاشقوں سے کتنی مختلف اور کتنی شدید ہے۔ وہ اس کو بتاتے ہیں کہ اگر انہیں اس کے کسی وعدے پر یقین ہو جاتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور شاید وہ اتنی بڑی خوشی برداشت ہی نہ کر پاتے اور مرجاتے۔ محبت کی شدت کا یہ اظہار بھی نرالا ہے جس میں غزل کے معشوق کی روایتی وعدہ خلافیوں کا شکوہ پس پشت چلا جاتا ہے اور عاشق کی انفرادیت اور اس کے شدت عشق کا پہلو ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ غالبؔ روایتی غزل کے مضامین کو گِھسے پٹے انداز میں اپنے اشعار میں دہرانے کو اپنے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے۔ وہ جب بھی کسی ایسے مضمون کو ہاتھ لگاتے تھے تو اس میں کوئی ایسا نیا پن ڈال دیتے تھے کہ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اس سے پہلے اس طرح کی بات کبھی نہیں سنی۔

’’خوشی سے مر نہ جاتے‘‘

میں معنی کا اک اور پہلو بھی ہے۔ یعنی اگر ہم کو وعدہ پر اعتبار ہوتا تو ہم خوشی خوشی، اپنی رضامندی سے مر جانا پسند کرتے۔ یہ معنی اس وقت کارگر ہوں گے جب فرض کر لیا جائے کہ معشوق نے مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ملنے کا وعدہ کیا ہے۔

محمد اعظم

تشریح

معشوق کو اس کے منہ پر جھوٹا کہہ دینا غالب کا ہی کام تھا۔ اردو غزل کے عاشق کی تو بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ معشوق اس سے کوئی وعدہ کرے۔ یہ وعدہ وصل کا بھی ہو سکتا ہے، ظلم و ستم سے توبہ کا بھی یا کسی نوازش کا بھی۔ وہ ان میں وعدوں سے بہل جاتا ہے اور اگر ایک وعدہ پورا نہیں ہوتا تو کسی دوسرے وعدے کے پورا ہونے کی امید پر جیتا رہتا ہے۔ لیکن غالبؔ نے صاف کہہ دیا کہ محترمہ آپ مجھ سے جو وعدے کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ میں دوسرے احمق عاشقوں کی طرح ان پر یقین کر کے ان کے پورا ہونے کی امید میں جی رہا ہوں تو اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کے کسی وعدے پر کبھی یقین ہی نہیں کیا۔ معشوق کو اتنا بڑا اعصابی جھٹکا دینے کے بعد وہ اسے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی محبت دوسرے عاشقوں سے کتنی مختلف اور کتنی شدید ہے۔ وہ اس کو بتاتے ہیں کہ اگر انہیں اس کے کسی وعدے پر یقین ہو جاتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور شاید وہ اتنی بڑی خوشی برداشت ہی نہ کر پاتے اور مرجاتے۔ محبت کی شدت کا یہ اظہار بھی نرالا ہے جس میں غزل کے معشوق کی روایتی وعدہ خلافیوں کا شکوہ پس پشت چلا جاتا ہے اور عاشق کی انفرادیت اور اس کے شدت عشق کا پہلو ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ غالبؔ روایتی غزل کے مضامین کو گِھسے پٹے انداز میں اپنے اشعار میں دہرانے کو اپنے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے۔ وہ جب بھی کسی ایسے مضمون کو ہاتھ لگاتے تھے تو اس میں کوئی ایسا نیا پن ڈال دیتے تھے کہ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اس سے پہلے اس طرح کی بات کبھی نہیں سنی۔

’’خوشی سے مر نہ جاتے‘‘

میں معنی کا اک اور پہلو بھی ہے۔ یعنی اگر ہم کو وعدہ پر اعتبار ہوتا تو ہم خوشی خوشی، اپنی رضامندی سے مر جانا پسند کرتے۔ یہ معنی اس وقت کارگر ہوں گے جب فرض کر لیا جائے کہ معشوق نے مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ملنے کا وعدہ کیا ہے۔

محمد اعظم

مرزا غالب

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مرزا غالب

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرزا غالب

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

مرزا غالب

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

تشریح

یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔

مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔

اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔

اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔

شفق سوپوری

تشریح

یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔

مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔

اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔

اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔

شفق سوپوری

مرزا غالب

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

مرزا غالب

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

مرزا غالب
  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

مرزا غالب

آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

مرزا غالب

مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

مرزا غالب

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

مرزا غالب

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

مرزا غالب

آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے

کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں

مرزا غالب

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

مرزا غالب

کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے

ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا

مرزا غالب

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

مرزا غالب

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

مرزا غالب
بولیے