غالب کے شعر اگر سمجھ نہ آئیں تو دو گنا مزہ دیتے ہیں
غالب اپنی سخت گوئی کے لئے بہت مشہور ہیں مگر ہم نے اس کلیکشن سیریز میں غالب کے ان اشعار کا انتخاب کیا ہے جو زبانی طور پر بہت آسان اور معنویت سے بھرپور ہیں
-
موضوعات : عشقاور 4 مزید
-
موضوع : ضرب المثل
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تشریح
معشوق کو اس کے منہ پر جھوٹا کہہ دینا غالب کا ہی کام تھا۔ اردو غزل کے عاشق کی تو بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ معشوق اس سے کوئی وعدہ کرے۔ یہ وعدہ وصل کا بھی ہو سکتا ہے، ظلم و ستم سے توبہ کا بھی یا کسی نوازش کا بھی۔ وہ ان میں وعدوں سے بہل جاتا ہے اور اگر ایک وعدہ پورا نہیں ہوتا تو کسی دوسرے وعدے کے پورا ہونے کی امید پر جیتا رہتا ہے۔ لیکن غالبؔ نے صاف کہہ دیا کہ محترمہ آپ مجھ سے جو وعدے کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ میں دوسرے احمق عاشقوں کی طرح ان پر یقین کر کے ان کے پورا ہونے کی امید میں جی رہا ہوں تو اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کے کسی وعدے پر کبھی یقین ہی نہیں کیا۔ معشوق کو اتنا بڑا اعصابی جھٹکا دینے کے بعد وہ اسے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی محبت دوسرے عاشقوں سے کتنی مختلف اور کتنی شدید ہے۔ وہ اس کو بتاتے ہیں کہ اگر انہیں اس کے کسی وعدے پر یقین ہو جاتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور شاید وہ اتنی بڑی خوشی برداشت ہی نہ کر پاتے اور مرجاتے۔ محبت کی شدت کا یہ اظہار بھی نرالا ہے جس میں غزل کے معشوق کی روایتی وعدہ خلافیوں کا شکوہ پس پشت چلا جاتا ہے اور عاشق کی انفرادیت اور اس کے شدت عشق کا پہلو ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ غالبؔ روایتی غزل کے مضامین کو گِھسے پٹے انداز میں اپنے اشعار میں دہرانے کو اپنے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے۔ وہ جب بھی کسی ایسے مضمون کو ہاتھ لگاتے تھے تو اس میں کوئی ایسا نیا پن ڈال دیتے تھے کہ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اس سے پہلے اس طرح کی بات کبھی نہیں سنی۔
’’خوشی سے مر نہ جاتے‘‘
میں معنی کا اک اور پہلو بھی ہے۔ یعنی اگر ہم کو وعدہ پر اعتبار ہوتا تو ہم خوشی خوشی، اپنی رضامندی سے مر جانا پسند کرتے۔ یہ معنی اس وقت کارگر ہوں گے جب فرض کر لیا جائے کہ معشوق نے مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ملنے کا وعدہ کیا ہے۔
محمد اعظم
تشریح
معشوق کو اس کے منہ پر جھوٹا کہہ دینا غالب کا ہی کام تھا۔ اردو غزل کے عاشق کی تو بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ معشوق اس سے کوئی وعدہ کرے۔ یہ وعدہ وصل کا بھی ہو سکتا ہے، ظلم و ستم سے توبہ کا بھی یا کسی نوازش کا بھی۔ وہ ان میں وعدوں سے بہل جاتا ہے اور اگر ایک وعدہ پورا نہیں ہوتا تو کسی دوسرے وعدے کے پورا ہونے کی امید پر جیتا رہتا ہے۔ لیکن غالبؔ نے صاف کہہ دیا کہ محترمہ آپ مجھ سے جو وعدے کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ میں دوسرے احمق عاشقوں کی طرح ان پر یقین کر کے ان کے پورا ہونے کی امید میں جی رہا ہوں تو اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کے کسی وعدے پر کبھی یقین ہی نہیں کیا۔ معشوق کو اتنا بڑا اعصابی جھٹکا دینے کے بعد وہ اسے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی محبت دوسرے عاشقوں سے کتنی مختلف اور کتنی شدید ہے۔ وہ اس کو بتاتے ہیں کہ اگر انہیں اس کے کسی وعدے پر یقین ہو جاتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور شاید وہ اتنی بڑی خوشی برداشت ہی نہ کر پاتے اور مرجاتے۔ محبت کی شدت کا یہ اظہار بھی نرالا ہے جس میں غزل کے معشوق کی روایتی وعدہ خلافیوں کا شکوہ پس پشت چلا جاتا ہے اور عاشق کی انفرادیت اور اس کے شدت عشق کا پہلو ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ غالبؔ روایتی غزل کے مضامین کو گِھسے پٹے انداز میں اپنے اشعار میں دہرانے کو اپنے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے۔ وہ جب بھی کسی ایسے مضمون کو ہاتھ لگاتے تھے تو اس میں کوئی ایسا نیا پن ڈال دیتے تھے کہ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اس سے پہلے اس طرح کی بات کبھی نہیں سنی۔
’’خوشی سے مر نہ جاتے‘‘
میں معنی کا اک اور پہلو بھی ہے۔ یعنی اگر ہم کو وعدہ پر اعتبار ہوتا تو ہم خوشی خوشی، اپنی رضامندی سے مر جانا پسند کرتے۔ یہ معنی اس وقت کارگر ہوں گے جب فرض کر لیا جائے کہ معشوق نے مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ملنے کا وعدہ کیا ہے۔
محمد اعظم
-
موضوعات : بھروسہاور 1 مزید
-
موضوعات : امیداور 3 مزید
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
تشریح
یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔
مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔
ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔
اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔
اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔
شفق سوپوری
تشریح
یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔
مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔
ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔
اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔
اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
-
موضوع : آئینہ
-
موضوع : خط
-
موضوعات : درداور 2 مزید