Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منڈے بلوز: آج تو بے سبب اداس ہے جی

منڈے بلوز کا مطلب ہے کہ آپ پیر کی صبح اداسی اور افسردگی کے گہرے اثر کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں ۔ اس کا بھرپور اثر عام طور پر طلباء، کارکنوں اور ملازمین میں دیکھنے کو ملتا ہے جنہیں ہفتے میں پانچ دن یا چھ دن کام کےسلسلسے سے ایک طے شدہ وقت گھر سے دور آفس یا اسکولز میں گزارنا ہوتا ہے۔ ایسے میں سوموار کے دن کام پر واپس آنا لوگوں کو گھبراہٹ اور افسردہ کرتا ہے، اور ان کے چہروں پر ایک اداسی اورپژمردگی چھائی رہتی ہے ۔ایسے موقعے پر ہمارا شعر کلیکشن پڑھیے ۔

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

ناصر کاظمی

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

فیض احمد فیض

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

ناصر کاظمی

کل کا دن ہائے کل کا دن اے جونؔ

کاش اس رات ہم بھی مر جائیں

جون ایلیا

دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں

بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں

اظہر فراغ

آج تو بے سبب اداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

ناصر کاظمی

میں زندگی کے سبھی غم بھلائے بیٹھا ہوں

تمہارے عشق سے کتنی مجھے سہولت ہے

ذیشان ساحل

خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا

کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا

ظفر اقبال

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

کفیل آزر امروہوی

بہت مایوس بیٹھا ہوں میں تم سے

کبھی آ کر مجھے حیرت میں ڈالو

لیاقت علی عظیم

ہمارے دل کو اک آزار ہے ایسا نہیں لگتا

کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں

عرفان صدیقی

دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا

میں کہ عکس منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا

راجیندر منچندا بانی

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں

ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں

محمد علوی

کتنی وحشت ہے درمیان ہجوم

جس کو دیکھو گیا ہوا ہے کہیں

جون ایلیا

یہ کس مقام پہ لائی ہے زندگی ہم کو

ہنسی لبوں پہ ہے سینے میں غم کا دفتر ہے

حفیظ بنارسی

دفتر میں ذہن گھر پہ نگہ راستے میں پاؤں

جینے کی کاوشوں میں بدن ہاتھ سے گیا

غضنفر

کوئی پوچھے تو سہی ہم سے ہماری روداد

ہم تو خود شوق میں افسانہ بنے بیٹھے ہیں

ظہیرؔ دہلوی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

ناصر کاظمی

تھکا ہارا نکل کر گھر سے اپنے

وہ پھر آفس میں سونے جا چکا ہے

عزیز فیصل

میں کس سے کرتا یہاں گفتگو کوئی بھی نہ تھا

نہیں تھا میرے مقابل جو تو کوئی بھی نہ تھا

کرشن کمار طورؔ
بولیے