Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

Filter : Date

Section:

پسندیدہ ویڈیو
This video is playing from YouTube

جگر مراد آبادی

Top 10 Sher Of Jigar Moradabadi

ویڈیو شیئر کیجیے

آج کے منتخب ۵ شعر

آج کا لفظ

آفاق

  • aafaaq
  • आफ़ाक़

معنی

horizons/the world

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

تشریح

اس سے پہلے کہ خدائے سخن میر کے اس شعر کی تشریح بیان کی جائے، اس شعر میں استعمال شدہ کچھ الفاظ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا لفظ آفاق ہے جو اُفق کی جمع ہے جس کے معنی horizons کے ہیں۔ دوسرا لفظ اسباب ہے جس کے معنی سازو سامان یا ضرورت کا سامان یا ضرورت کی اشیاء یا belongings کے ہیں۔ تیسرا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے سفری ہے جس کے معنی راہی یا مسافر یا گزرنے والا ہے۔ اب سب سے پہلے جس تناظر میں آفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے۔ وہ یہ کرۂ ارض ہے، یعنی یہ دنیا ہے جہاں انسان رہتا ہے، بستا ہے، اپنی زندگی بسر کرتا ہے، اپنی زندگی کے ساز و سامان اکٹھا کرتا ہے اور زندگی کے ساز و سامان کے لیے دوڑ دھوپ، تگ و دو کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ اس دنیا سے منسلک ہو کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور ساری جدوجہد اس دنیا کے حصول کے لیے اور اسی دنیا کی محنت کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ میر نے اس عارضی زندگی اور عارضی دنیا سے انسان کے تہی داماں رخصت ہو جانے کا ایسا منظر کھینچا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ہی نظر آتی ہے ۔

انسان اس دنیا کی زندگی میں کھپتا ہے، مرتا ہے، صعوبتیں جھیلتا ہے، مشکلات اٹھاتا ہے اور اسی دنیا کی زندگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اس کی منزل کہیں اور ہے ، اس کو کہیں اور جانا ہے، وہ کسی اور دنیا کا مسافر ہے، اس جہان میں ایک عارضی سا اس کا قیام ہے۔ وہ جتنی بھی دولت کما لے، مال حاصل کر لے، اسباب اکٹھا کر لے، آخر کار سب ایک معینہ مدت کے بعد اس سے چھوٹ جانے والے ہیں اور اس کا سارا مال و متاع اسی دنیا تک رہ جانے والا ہے اس کے ساتھ نہیں جانے والا ہے اس کو تو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔

H.W.Longfellow

" A Plsalm of Life "

میں فرماتے ہیں ۔

Art is long , and Time is fleeting

And our hearts, though stout and brave ,

Still , like muffled drums are beating

Funeral marches to the graves "

یعنی انسان لمحہ لمحہ اپنی موت سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اس نے اس دنیا میں جو زندگی گزاری ہے یا جو مال کمایا ہے جو پیسہ، جو دولت اکھٹا کیا ہے وہ سب اس کی موت کے بعد بے سود ہے۔ اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یہ مال اس کے کام آنا ہے نہ ساتھ جانا ہے۔ نہ دولت اس کے ساتھ جانی ہے نہ اس کے ساتھ اس کی کمائی ہوئی کوئی دنیاوی شے اس کے ساتھ جانی ہے۔ میر نے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مسافر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو دنیا کی اس سچائی کو بیان کرتا ہے۔

سہیل آزاد

تشریح

اس سے پہلے کہ خدائے سخن میر کے اس شعر کی تشریح بیان کی جائے، اس شعر میں استعمال شدہ کچھ الفاظ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا لفظ آفاق ہے جو اُفق کی جمع ہے جس کے معنی horizons کے ہیں۔ دوسرا لفظ اسباب ہے جس کے معنی سازو سامان یا ضرورت کا سامان یا ضرورت کی اشیاء یا belongings کے ہیں۔ تیسرا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے سفری ہے جس کے معنی راہی یا مسافر یا گزرنے والا ہے۔ اب سب سے پہلے جس تناظر میں آفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے۔ وہ یہ کرۂ ارض ہے، یعنی یہ دنیا ہے جہاں انسان رہتا ہے، بستا ہے، اپنی زندگی بسر کرتا ہے، اپنی زندگی کے ساز و سامان اکٹھا کرتا ہے اور زندگی کے ساز و سامان کے لیے دوڑ دھوپ، تگ و دو کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ اس دنیا سے منسلک ہو کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور ساری جدوجہد اس دنیا کے حصول کے لیے اور اسی دنیا کی محنت کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ میر نے اس عارضی زندگی اور عارضی دنیا سے انسان کے تہی داماں رخصت ہو جانے کا ایسا منظر کھینچا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ہی نظر آتی ہے ۔

انسان اس دنیا کی زندگی میں کھپتا ہے، مرتا ہے، صعوبتیں جھیلتا ہے، مشکلات اٹھاتا ہے اور اسی دنیا کی زندگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اس کی منزل کہیں اور ہے ، اس کو کہیں اور جانا ہے، وہ کسی اور دنیا کا مسافر ہے، اس جہان میں ایک عارضی سا اس کا قیام ہے۔ وہ جتنی بھی دولت کما لے، مال حاصل کر لے، اسباب اکٹھا کر لے، آخر کار سب ایک معینہ مدت کے بعد اس سے چھوٹ جانے والے ہیں اور اس کا سارا مال و متاع اسی دنیا تک رہ جانے والا ہے اس کے ساتھ نہیں جانے والا ہے اس کو تو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔

H.W.Longfellow

" A Plsalm of Life "

میں فرماتے ہیں ۔

Art is long , and Time is fleeting

And our hearts, though stout and brave ,

Still , like muffled drums are beating

Funeral marches to the graves "

یعنی انسان لمحہ لمحہ اپنی موت سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اس نے اس دنیا میں جو زندگی گزاری ہے یا جو مال کمایا ہے جو پیسہ، جو دولت اکھٹا کیا ہے وہ سب اس کی موت کے بعد بے سود ہے۔ اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یہ مال اس کے کام آنا ہے نہ ساتھ جانا ہے۔ نہ دولت اس کے ساتھ جانی ہے نہ اس کے ساتھ اس کی کمائی ہوئی کوئی دنیاوی شے اس کے ساتھ جانی ہے۔ میر نے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مسافر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو دنیا کی اس سچائی کو بیان کرتا ہے۔

سہیل آزاد

لفظ شیئر کیجیے

کیا آپ کو معلوم ہے؟

نستعلیق وہ خوبصورت رسم الخط ہے جس میں اردو لکھی جاتی ہے، جو چودھویں اور پندرہویں صدی میں ایران میں بنایا گیا تھا۔ ’نسخ‘ وہ رسم الخط ہے، جس میں عام طور پر عربی لکھی جاتی ہے۔ اور ’تعلیق‘ ایک فارسی رسم الخط ہے۔ دونوں مل کے ’نستعلیق‘ بن گئے۔ اردو میں باسلیقہ اور مہذب لوگوں کو بھی ’نستعلیق‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی بہت نفیس اور صاف طبیعت کا مالک۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

سارا

سارہ شگفتہ ایک جدید پاکستانی شاعرہ تھیں۔ تقسیم ہند کے دوران ان کا کنبہ پنجاب سے کراچی ہجرت کر گیا۔ ان کی زندگی جدوجہد سے بھری ہوئی تھی۔ ایک غریب اور ان پڑھ خاندان سے تعلق رکھنے والی سارہ شگفتہ تعلیم کے ذریعہ معاشرتی طور پر ایک مقام حاصل کرنا چاہتی تھیں، لیکن وہ میٹرک پاس نہ کر سکیں۔ ان کی شادی 17 سال کی عمر میں ہی کر دی گئی۔ اس کے بعد تین ناکام شادیاں مزید ہوئیں۔ وہ اپنے نوزائیدہ بیٹے کی موت اور اپنے شوہروں کی بے حسی پر سخت رنجیدہ تھیں۔ ان کے شوہروں اور معاشرے کے  برے سلوک نے انہیں نظمیں کہنے کی ترغیب دی اور وہ غیر معمولی جوش کے ساتھ لکھتی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ  ذہنی بیماری سے دوچار ہوئیں  جسکی وجہ سے مینٹل اسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا۔ خودکشی کی چند ناکام کوششوں کے بعد، سارہ نے بالآخر محض 29 برسی کی عمر میں خودکشی کرلی۔ ان کی شخصیت اور شاعری کو بنیاد بنا کر .امریتا پریتم نے ''ایک تھی سارہ'' کے نام سے کتاب لکھی۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

امیر

اردو کی پہلی قابل ذکر مثال صوفی، شاعر ماہر موسیقی حضرت امیر خسرو کی ہے ۔ اردو کی پہلی غزل بھی انہیں سے منسوب ہے ۔ امیر خسرو نے مختلف اصناف غزل ، پہیلیاں ، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی  کی۔ آپ خواجہ حضرت نظام الدین کے مرید تھے اور بادشاہ وقت سے بھی رسم و راہ رکھتے تھے ۔ ان کی قبر بھی حضرت نظام الدین کے بغل میں ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

اردو میں ملاح مانجھی یا جہاز چلانے والے کو کہتے ہیں۔ اس لفظ کا تعلق عربی  زبان کے لفظ 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ چونکہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے، پہلے تو سمندر سے نمک بنانے والوں کو 'ملاح' کہا گیا۔ پھر سمندر میں جانے والوں کو ملاح کہا جانے لگا۔ اب تو میٹھے پانی کی جھیل میں کشتی چلانے والے کو بھی ملاح ہی کہتے ہیں۔ لفظ 'ملاحت' بھی اردو ادب میں جانا پہچانا ہے۔ اس کا رشتہ بھی 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ یعنی سانولا پن، خوبصورتی۔ بہت سے اشعار میں اسے مختلف انداز سے برتا گیا ہے۔
کشتی اور پانی کے سفر سے متعلق ایک اور لفظ اردو شاعری میں بہت ملتا ہے۔ 'نا خدا' جو ناوؑ اور خدا سے مل کر بنا ہے، اور فارسی سے آیا ہے۔ یعنی کشتی کا مالک یا سردار۔
تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا 
بچا سکو تو بچا لو کہ ڈوبتا ہوں میں 
آسرار الحق مجاز

کیا آپ کو معلوم ہے؟

میر

میر تقی میر کے بارے میں عام تصور ہے کہ وہ دل شکستہ، دنیا سے بیزار انسان تھے جو درد و الم میں ڈوبے اشعار ہی کہتے تھے۔ لیکن دنیا کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ میر کو جانوروں سے بھی گہری دلچسپی تھی، جو ان کی مثنویوں اور خود نوشتی گھریلو نظموں میں بہت خلاقانہ انداز سے نظر آتی ہے۔ دوسرے شعرا نے بھی جانوروں کے بارے میں لکھا ہے، لیکن میر کے اشعار میں جب  جانور زندگی کا حصہ بن کر آتے ہیں تو ان میں انسانی صفات اور خصوصیات کا بھی رنگ آ جاتا ہے۔ میر کی  مثنوی 'موہنی بلی' کی بلی بھی ایک کردار ہی معلوم ہوتی ہے۔ 'کپی کا بچہ' میں بندر کا بچہ بھی کافی حد تک انسان نظر آتا ہے۔ مثنوی 'مور نامہ' ایک رانی اور ایک مور کے عشق کی المیہ داستان ہے، جس میں دونوں آخر میں جل مرتے ہیں۔ اس کے علاوہ  مرغ، بکری وغیرہ پر بھی ان کی مثنویاں ہیں۔
ان کی  مشہور مثنوی 'اژدر نامہ' جانوروں کے نام، ان کی عادات اور خصوصیات کے ذکر سے پُر ہے۔ اس میں مرکزی کردار اژدہے کے علاوہ  30 جانوروں کے نام شامل ہیں۔ محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ میر نے اس میں خود کو اژدہا کہا اور دوسرے تمام  شعرا کو حشرات الارض مانا ہے۔ حالانکہ اس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

آج کی پیش کش

ادیب سہیل

ادیب سہیل

1927-2017

معروف شاعر اور مصنف، گہرے سماجی شعور کےساتھ نظمیں اور غزلیں کہیں، پاکستان سے شائع ہونے والے اہم ادبی رسالے ’قومی زبان‘ کے مدیر رہے

کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے

گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے

پوری غزل دیکھیں

ادیب سہیل کے بارے میں شیئر کریں

ای-کتابیں

بزم ادب

نامعلوم مصنف 

1938

کبیر

نامعلوم مصنف 

1978 سوانح حیات

سودائے خودی

شمس دکنی 

1995

پطرس کے مضامین

پطرس بخاری 

2011 نثر

اپنے دکھ مجھے دے دو

راجندر سنگھ بیدی 

1997 افسانوی ادب

ای-کتابیں
بولیے