Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hafeez Jaunpuri's Photo'

حفیظ جونپوری

1865 - 1918 | جون پور, انڈیا

اپنے شعر ’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘ کے لیے مشہور

اپنے شعر ’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘ کے لیے مشہور

حفیظ جونپوری کی ٹاپ ٢٠ شاعری

اخیر وقت ہے کس منہ سے جاؤں مسجد کو

تمام عمر تو گزری شراب خانے میں

آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو

اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف

تھے چور میکدے کے مسجد کے رہنے والے

مے سے بھرا ہوا ہے جو ظرف ہے وضو کا

کافر عشق کو کیا دیر و حرم سے مطلب

جس طرف تو ہے ادھر ہی ہمیں سجدا کرنا

گیا جو ہاتھ سے وہ وقت پھر نہیں آتا

کہاں امید کہ پھر دن پھریں ہمارے اب

بوسۂ رخسار پر تکرار رہنے دیجیے

لیجیے یا دیجیے انکار رہنے دیجیے

عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے

مجنوں پہ کیا گزر گئی صحرا گواہ ہے

یاد آئیں اس کو دیکھ کے اپنی مصیبتیں

روئے ہم آج خوب لپٹ کر رقیب سے

برا ہی کیا ہے برتنا پرانی رسموں کا

کبھی شراب کا پینا بھی کیا حلال نہ تھا

جب ملا کوئی حسیں جان پر آفت آئی

سو جگہ عہد جوانی میں طبیعت آئی

تندرستی سے تو بہتر تھی مری بیماری

وہ کبھی پوچھ تو لیتے تھے کہ حال اچھا ہے

شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے

تو ہنس کے بولے الگ بیٹھیے قرینے سے

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ

نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل

ان کی یکتائی کا دعویٰ مٹ گیا

آئنے نے دوسرا پیدا کیا

پری تھی کوئی چھلاوا تھی یا جوانی تھی

کہاں یہ ہو گئی چمپت جھلک دکھا کے مجھے

حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی

نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ

صاف انکار سے خاطر شکنی ہوتی ہے

زاہد کو رٹ لگی ہے شراب طہور کی

آیا ہے میکدے میں تو سوجھی ہے دور کی

سچ ہے اس ایک پردے میں چھپتے ہیں لاکھ عیب

یعنی جناب شیخ کی داڑھی دراز ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے