حفیظ میرٹھی کے اشعار
محبت چیخ بھی خاموشی بھی نغمہ بھی نعرہ بھی
یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ
شیخ قاتل کو مسیحا کہہ گئے
محترم کی بات کو جھٹلائیں کیا
صرف زباں کی نقالی سے بات نہ بن پائے گی حفیظؔ
دل پر کاری چوٹ لگے تو میرؔ کا لہجہ آئے ہے
رات کو رات کہہ دیا میں نے
سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
ہر سہارا بے عمل کے واسطے بیکار ہے
آنکھ ہی کھولے نہ جب کوئی اجالا کیا کرے
یہ بھی تو سوچئے کبھی تنہائی میں ذرا
دنیا سے ہم نے کیا لیا دنیا کو کیا دیا
اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی
کیا جانے کیا سبب ہے کہ جی چاہتا ہے آج
روتے ہی جائیں سامنے تم کو بٹھا کے ہم
رسا ہوں یا نہ ہوں نالے یہ نالوں کا مقدر ہے
حفیظؔ آنسو بہا کر جی تو ہلکا کر لیا میں نے
رنگ آنکھوں کے لیے بو ہے دماغوں کے لیے
پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے
اب کھل کے کہو بات تو کچھ بات بنے گی
یہ دور اشارات و کنایات نہیں ہے
بد تر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
گاتا جائے روتا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مے خانے کی سمت نہ دیکھو
جانے کون نظر آ جائے
-
موضوع : مے کدہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا
میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا
-
موضوع : وقت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بزم تکلفات سجانے میں رہ گیا
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کبھی کبھی ہمیں دنیا حسین لگتی تھی
کبھی کبھی تری آنکھوں میں پیار دیکھتے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے
کتنا جھک کر کسے سلام کرو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ